دیکھے گا زمانہ (عبدالرحمان خان)

کہیں پر ہیں ٹھیلے کہیں پر ہے ریڑھی 
فٹ پاتھ ساری ہے میں نے گھیری

کے ایم سی بھی یار ہے اپنا سالا
اپنی دکان دو گز سے بیس گزبنالی 

پولیس والے کو تو بس مالٹا کھلانا
ہنسی خوشی ہم نے ساتھ تھا نبھانا

اونچی تھی دکان اور پھیکے تھے پکوان
اک دن ملا جب حکم نامہ

تبدیلی نے کیا سب کچھ پرانا
بولا ہمارے آنے تک خود توڑتے جانا

کے ایم سی کا بھی یار ہوا دشمن پرانا
کرین اب ہر گلی میں کھڑی ہے 

زلزلوں کی جیسے لڑی ہے
تنظیموں کا شوق تھا محض تصویر بنوانا

امیدیں ساری اب ڈھیر میں پڑی ہیں 
کروں کیا اب بس ایک بات دماغ میں پڑی ہے

گھر میں اب چلوں کہاں سمجھ نہیں آتا
ہرجگہ تجاوزات بکھری پڑی ہے

پرانا گاہک بھی ہوگیا گم 
پڑوسی سے جب سنا دکان اپنی بڑھا گئے

سوچا اب دکان ہو یا مکان بنانا
کاغز پورے ساتھ لے کر آنا

دکان ٹوٹی پر امید نہیں ٹوٹی 
بیگم کو بول دیا ہے تم نہیں گھبرانا

دکان دیکھتا ہوں اب نئی روزانہ 
چمکا دونگا کاروبار دیکھے گا یہ زمانہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں