الیکمسٹ! دنیا کا مقبول ناول کیوں؟

تحریر: شعیب واجد

اگر آپ کبھی خودکوبھیڑوں کےپیچھے پیچھے،اونچی نیچی پگڈنڈیوں پر دوڑتا محسوس کریں،غیراباد سی وادی میں کوئی انجانا سا وجود آپ کو رستہ بھی بتارہا ہو،اس سفر میں آپ کی منزل کوئی انمول خزانہ بھی ہو،توزراایک منٹ ٹہریں خود کو اپنی اصل دنیا میں واپس لے آئیں۔۔کیونکہ آپ کے ہاتھ میں شاید اس وقت ناول ’’الکیمسٹ‘‘ ہے،اور آپ شاید ناول پڑھتے پڑھتے اس عظیم پرتگیزالنسل لکھاری پاؤلو کوئیلھو  کے،سحرانگیزالفاظ میں کھو کر خود ’’سان تیاگو‘‘ ہوچکے ہیں۔۔

جی ہاں سان تیاگو اسی اٹھارہ سالہ چرواہے کا نام ہے جو اسپین کی وادی میں بھیڑیں چرا رہا تھا۔۔یہ وادی ہری بھری لیکن پتھریلی ہے۔۔پتھر سرخی مائل ہیں۔ان پتھروں سے پھوٹتی ہری بھری کونپلیں قدرت کے فن پاروں کی طرح ہوا کے دوش پر جھوم رہی ہیں۔۔چرواہا  گوکہ کمسن ہےلیکن اس میں ایک خوبی ہے وہ ہوا کی سرسراہٹ سے لیکر پاؤں پڑنے سے پتھر کے لڑھک جانے کو بھی ایک نشانی کے طور پر لیتا ہے۔۔

بظاہر یہ اس لڑکے سانتیاگو کی کہانی ہے۔۔جس نے سفر سے پہلا سبق یہ سیکھا تھا  کہ نشانیاں  اکٹر رونما ہوتی لیکن انہیں سمجھنا ہی قسمت کواس کی درست ترتیب میں رکھتا ہے۔۔

حقیقت یہ ہے کہ کسی ناول کا مرکزی کرداراصل میں لکھاری کے اپنے دل کی ہی آواز ہوتا ہے۔اور الکیمسٹ میں بھی ریگرازوں میں بھٹکتا سان تیاگو کوئی اور نہیں شاید پاؤلو کوئیلھو خود ہی تھا۔۔

الکیمسٹ کا جذب حاصل کرنے والےقاری جانتے ہیں کہ کیسے پاؤلو کوئیلھوکا تخیل آپ کو ہوا کے دوش پراڑا لے جاتا ہے،کتاب ہاتھ میں ہو تو آپ کبھی اسپین کی چراگاہوں میں تو، کبھی چٹانوں میں ٹھاٹھیں مارتے بحیرہ روم کے نیلے پانیوں میں، تو کبھی مراکش کے گیروؤے ریگزاروں میں خود کو محسوس کرتے ہیں۔۔۔۔

پاؤلو کوئیلھو کی شخصیت اور اس کے اس ناول میں ایسی کیا بات تھی جس نے اسے دنیا کا سب سے ذیادہ پڑھا جانے والا ناول بنادیا؟

ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔یہ اسپین کی سرزمین ہے،جہاں افریقہ تمام ہوتا ہے اور یورپ کا دوام ہوتا ہے۔دو براعظموں کا ملاپ بھی عجیب ہوتا ہے۔ دو زمینیں اور دو ہوائیں  اک دوسرے سے ملنے کیلئے بے قرار رہتی ہیں۔۔درمیان کا نمکین پانی کبھی کبھی ایک مٹی کی خوشبو دوسری مٹی میں ملا دیتا ہے۔۔الکیمسٹ میں بھی نوجوان چرواہے نے دو مٹیوں کی خوشبو کو بہت قریب سے محسوس کیا۔

اس ناول میں اصل میں کوئی ایک نہیں کئی ٹھوس پیغام چھپے ہیں۔یاد کریں وہ صفحہ،سان تیاگو  مراکش میں کٹھن ترین ایک سال گزارکروطن لوٹ رہا پے۔ساحلی شہر سے اسے اسپین جانے والے جہاز میں سوار ہونا ہے،ایسے میں اس کا ہاتھ اپنے تھیلے میں موجود ان دو کراماتی پتھروں سے ٹکرا جاتا ہے۔۔اور یہیں پر وہ چونک ساجاتا ہے،یہاں اسے وہ پتھر دینے والا بوڑھا بادشاہ یاد آجاتاہے جس کی تلقین کا خلاصہ یہ تھا کہ اپنے خواب کبھی نہ کھونا۔نشانیوں پر نظر رکھنے والا سان تیاگو اس واقعے کو بے وجہ نہیں گردانتا،اسی لمحےاس پر ایک آمد ہوتی ہے، وہ اس بات کو ایک نشانی کے طور پرلیتا ہے،کہ جیسے پتھروں نےشاید اسے اپنے خواب پورے کرنے کا مشورہ دیا ہو،اور پھراسی لمحے وہ وطن واپسی کا اپنا ارادہ ترک کردیتا ہے۔۔کہانی میں نیا موڑ آجاتا ہے۔

اور پھر یوں سان تیاگوکا وہ سفر شروع ہوتا ہے جسے اس ناول کا تیسرا موڑ بھی کہا جاسکتا ہے۔۔یاد رہے پہلا موڑ اس کا اسپین میں بھیڑیں چرانا،اس کا خواب اور  بوڑھے بادشاہ سے ملاقات کو کہا جاسکتا ہے۔۔ جبکہ دوسرا موڑ وہ عرصہ تھا جب اس نےنے کرسٹل والے تاجر کے ساتھ زندگی کا ایک سال گزارا۔۔

تیسرے موڑ کا یہ سفر صحرا سے شروع ہوتا ہے اور نخلستان میں پڑاؤ ڈالتا ہے اور حاصل سفر،  اہرام مصر کے میدانوں میں چھپا خزانہ ہوتا ہے ۔اس پڑاؤ میں سان تیاگو نئےعرفان کی منازل سے بھی روشناس ہوتا ہے، ہوا اور سورج اس سے کلام کرتے ہیں۔۔۔نخلستان میں اسے فاطمہ کہ صورت میں بھی ایک ایسا کردار ملتا ہے جو نہ صرف منزل کی جانب اس کے سفر  کیلئے مہمیز ثابت ہوتا ہے بلکہ سان تیاگو کیلئے زندگی کے ہمسفر کا تعین بھی کرتا ہے۔۔

سان تیاگو کو زندگی میں رہبر بھی ملے اور رہزن بھی۔۔لیکن منزل اور سفر کے لیئے سب سے درست راستہ ان رہزنوں کے اس تمسخرانہ جملے نے دکھایا،جو انہوں نے اسے لُوٹ کر چلتے ہوئے ہوئے ادا کیاتھا۔۔انہوں نے سان تیاگو سے کہا تھا کہ تم بے وقوف ہو کہ ایک خواب پر بھروسہ کرکے خزانہ ڈھونڈنے یہاں اتنی دورچلے آئے، مجھے دیکھو کہ مجھےخواب آیا کہ اسپین میں چرچ میں پرانے برگد کی جڑوں تلے خزانہ موجود ہے کیا میں وہاں دوڑا چلا گیا؟

اسی لمحے جیسے سان تیاگو کی سوچ ، دنیا اور منزل کا رستہ ہی بدل گئی،رہزن اسے اس کے اپنے شہر اورعلاقے میں خزانے کی  چھپے ہونے کا رازبتا گیا،خزانہ تووہیں تھا جہاں سے سان تیاگو چلا تھا،یعنی اس کے قدموں میں۔۔

اس ناول سے یہاں ایک اور سبق یہ ملا کہ آپ کی زندگی کی سمت کسی کی بھی وساطت سے طے ہوسکتی ہے،جانے میں بھی اور انجانے میں بھی۔ چاہے وہ کوئی اپنا ہو یا چاہے وہ کوئی رہزن ہی کیوں نہ ہو، راہیں کئی سمت مڑتی ہیں آپ نے کس راہ پر جانا ہے،اس کے لئے الفاظ ، واقعات اور دیگر نشانیوں پر نظر رکھنا ہی شرط ہے۔

لیکن اس ناول کا حاصل تحریر اگر کسی پیغام کو کہا جاسکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ منزل اکثرہمارے قدموں میں ہوتی ہے لیکن اسے ہم ڈھونڈ کہاں کہاں نہیں رہے ہوتے۔۔اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے منزل سے کس قدر دور نکل جاتے ہیں،جوں جوں ہماری تلاش بڑھ رہی ہوتی ہے،منزل اتنی ہی دور ہورہی ہوتی ہے، عمل معکوس رونما ہورہا ہوتا ہے، تلاش ، منزل سے ہی دور کررہی ہوتی ہے۔۔

رہزن کی بات سے سان تیاگو کو نشانی مل جاتی ہے۔منزل کا پتا مل جاتا ہے۔منزل وہی تھی، جہاں سے وہ چلا تھا۔یعنی اس کا ملک، اس کا شہر۔ اس کا گھر۔

یہاں کہانی میں چوتھا موڑ آتا ہے۔۔سان تیاگو منزل پالیتا ہے۔خزانہ مل جاتا ہے۔۔تلاش مکمل ہوجاتی ہے۔۔

پاؤلو کوئیلھو کی تحریروں میں یہی وہ امید، لگن، مستی اور کمال ہے جو قارئین کو پہلو بدل  بدل کر کتاب پر نظریں جمانے پر مجبور کرتا ہے۔۔اکثر ایسا موقع بھی آتا ہے جب کسی سطر کو آپ کئی  کئی بار پڑھتے ہیں اور مصنف کو داد دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔۔

کہتے ہیں پاؤلو کوئیلھو نے الکیمسٹ ناول کو دو صرف دو ہفتوں میں مکمل کیا تھا،یہ 1988 کا زمانہ تھا ، ناول چھپا لیکن صرف 900 کاپیاں چھپنے کے بعد ہی سب ٹھپ ہوگیا۔پبلشر نے مزید چھاپنے سے انکار کیا۔ بعد ازاں پاؤلو نے ایک کوشش اور کی۔تاہم ناول کی چند ہزار کاپیاں ہی فروخت ہوسکیں۔ 1994 میں تیسری بار انہوں نے یہ ناول چھپوایا اورپھر جیسے دنیا کو اس کی قدر و قیمت کا احساس ہو ہی گیا ۔ ناول کی کہانی اور اس کی شہرت پھیلی اور الکیمسٹ، ادب کی دنیا پرچھاتا چلا گیا۔ دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں اسکا ترجمہ ہوا۔۔فروخت کےنئے ریکارڈ قائم ہوئے۔43 ملین کاپیاں 155 ممالک میں فروخت ہوئیں۔۔اسے گینیز ورلڈ بک میں پرتگیزی زبان کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ناول تسلیم کیا گیا۔

پاؤلو کوہلو کی اپنی زندگی بھی مشکلات ، سختیوں اور سفر سے عبارت رہی ۔    1947 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جیینیرو میں پیدا ہوئے۔۔نوجوانی کے ایام میں ان کی سوچ نے انہیں پاگل خانے تک بھی پہنچایا۔۔انہیں تشدد بھی سہنا پڑا۔تاہم چند سال بعد وہ اس مشکل وقت سے نجات پاگئے۔۔

انہیں برازیل میں ایک لکھاری کے علاوہ موسیقار ، نغمہ نگار اور تمثیل نگار کے طور پربھی جانا جاتا ہے۔ان کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ حکومت کے عتاب کا شکار ہوکر قیدخانوں کے مکین بھی بنے۔لیکن وہ وقت بھی گزر گیا۔۔آج پاؤلو کوئیلھو دنیا کے ایک بہترین ناول نگار کہلاتے ہیں۔۔الکیمسٹ کے علاوہ بھی وہ کئی مشہور ناول لکھ چکے ہیں اور ایک عمدہ زندگی گزار رہے ہیں۔۔

پاؤلو کوئیلہو کے متعدد مقولے آج ضرب المثل بن چکے ہیں۔ان کا ایک مقولہ ایسا ہے جو موجودہ انسانیت کیلئے خصوصی پیغام ہے۔۔اور شاید اسی پیغام پر ہمارے اس مضمون کا اختتام بھی ہوجانا چاہیئے۔۔

پاؤلو کہتے ہیں۔۔میں اپنے ماضی یا اپنے مستقبل میں نہیں رہتا۔ مجھے صرف حال میں دلچسپی ہے۔ اگر آپ موجودہ وقت پر توجہ مرکوز کرسکتے ہیں تو،آپ خوش حال انسان بنیں گے۔زندگی آپ کیلئے خوشگوار تہوارجیسی ہوگی،کیونکہ زندگی ہم موجودہ لمحے میں ہی گذار رہے ہوتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں