ڈاکٹرجمیل جالبی پاکستان کے نامور اردو نقاد، ماہرِ لسانیات، ادبی مؤرخ، سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی، چیئرمین مقتدرہ قومی زبان (موجودہ ادارہ فروغ قومی زبان) اور صدر اردو لُغت بورڈ تھے۔ آپ کا سب سے اہم کام قومی انگریزی اردو لغت کی تدوین اور تاریخ ادب اردو، ارسطو سے ایلیٹ تک، پاکستانی کلچر،، قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ جیسی اہم کتاب کی تصنیف و تالیف ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی 12جون،1929ء کوعلی گڑھ، برطانوی ہندوستان میں ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد جمیل خان تھا۔ ان کے آباء واجداد یوسف زئی پٹھان ہیں اور اٹھارویں صدی میں سوات سے ہجرت کر کے ہندوستان میں آباد ہوئے تھے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے والد محمد ابراہیم خاں میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹرجمیل جالبی نے ہندوستان، پاکستان کے مختلف شہروں میں تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم علی گڑھ میں ہوئی۔ 1943ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول سہارنپور سے میٹرک کیا۔ میرٹھ کالج سے 1945ء میں انٹر اور 1947ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ کالج کی تعلیم کے دوران جالبی صاحب کو ڈاکٹرشوکت سبزواری، پروفیسر غیوراحمد رزمی اور پروفیسر کرار حسین ایسے استاد ملے جنہوں نے ان کی ادبی صلاحیتوں کو اجاگر کیا۔ اردو ادب کے صف اول کے صحافی سید جالب دہلوی اور جالبی صاحب کے دادا دونوں ہم زلف تھے۔ محمد جمیل خاں نے زمانہ طالبعلمی میں ہی ادبی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا۔ سید جالب ان کے آئیڈیل تھے۔ اسی نسبت سے انہوں نے اپنے نام کے ساتھ جالبی کا اضافہ کیا۔ تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں ڈاکٹر جمیل جالبی اور ان کے بھائی عقیل پاکستان آ گئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جمیل جالبی کو بہادر یار جنگ ہائی اسکول میں ہیڈ ماسٹری کی پیش کش ہوئی جسے انہوں نے قبول کر لیا۔ جمیل صاحب نے ملازمت کے دوران ہی ایم اے اور ایل ایل بی کے امتحانات پاس کر لیے۔ جس کے بعد 1972ء میں سندھ یونیورسٹی سے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کی نگرانی میں قدیم اُردو ادب پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی اور 1978ء میں مثنوی کدم راؤ پدم راؤ پر ڈی لٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ بعد ازاں سی ایس ایس کے امتحان میں شریک ہوئے اور کامیاب ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے والدین کو بھی پاکستان بلا لیا۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد باقاعدہ طور پر ادبی سرگرمیوں میں مصروف ہوئے۔ قبل ازیں انہوں نے ماہنامہ ساقی میں معاون مدیر کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنا ایک سہ ماہی رسالہ نیا دور بھی جاری کیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی 1983ء میں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور 1987ء میں مقتدرہ قومی زبان (موجودہ نام ادارہ فروغ قومی زبان) کے چیئرمین تعینات ہوئے۔ اس کے علاوہ آپ 1990ء سے 1997ء تک اردو لغت بورڈ کراچی کے سربراہ بھی رہے،،، جالبی صاحب کی سب سے پہلی تخلیق سکندر اور ڈاکو تھی جو انہوں نے بارہ سال کی عمر میں تحریر کی اور یہ کہانی بطور ڈراما اسکول میں اسٹیج کیا گیا۔ جالبی صاحب کی تحریریں دہلی کے رسائل بنات اور عصمت میں شائع ہوتی رہیں۔ ان کی شائع ہونے والی سب سے پہلی کتاب جانورستان تھی جو جارج آرول کے ناول کا ترجمہ تھا۔ ان کی ایک اہم کتاب پاکستانی کلچر: قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ ہے جس کے آٹھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ایک اور مشہور تصنیف تاریخ ادب اردو ہے جس کی چار جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی دیگر تصانیف و تالیفات میں تنقید و تجربہ، نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، محمد تقی میر، معاصر ادب، قومی زبان یک جہتی نفاذ اور مسائل، قلندر بخش جرأت لکھنوی تہذیب کا نمائندہ شاعر شامل ہیں۔
(تحقیق. کامران مغل)