قائد اعظم کی سالگرہ آئی اور گزر گئی۔۔پروگرام ہوئے۔مزار پر حاضریاں دی گئیں۔۔اور بس فرض پورا ہوگیا۔۔
یہ بات آج سے قریباً ایک صدی پہلے کی ہے جب کراچی میں پیدا ہونے والے محمد علی جناح نے برِ صغیر میں ایک انقلابی تحریک شروع کی تحریک کا بنیادی مقصد برِ صغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا۔
جب انسانوں کا ایک گروہ کسی بھی تحریک کو مقصدِ حیات بنالے تو یہ بات اٹل ہے وہ تحریک ہمیشہ انقلاب لاتی ہے۔14 اگست 1947 کی صبح بھی اس انقلابی تحریک کے نتیجے میں آنے والی وہ صبح تھی جب برصغیر کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ ریاست کا حق دے دیا گیا اور ہمارا پیارا ملک پاکستان وجود میں آیا۔
تاریخ گواہ ہے جب بھی راستہ انقلابی ہو تو سامنے رکاوٹیں ،مشکلات ،مصائب ہزاروں آتی ہیں مگر ان مشکلات سے ہی گزر کر منزل کو پایا جاتا ہے۔ صاحبو! میں آپکے ذہن کو پڑھ سکتا ہوں آپ سوچ رہے ہوں گے آج تو یوم آزادی نہیں ہے آج تو یوم دفاع بھی نہیں ہے تو پھر یہ اتنی لمبی تمہید کیوں باندھی جارہی ہے اسکا جواب ہندوستان کے سیاستدان اسد الدین اویسی کے یہ الفاظ ہیں” مودی کی حکومت یہ نیا بل منظور کر چکی ہے جو کہ مسلمانانِ ہند کو انکی شہریت سے محروم کرتا ہے یہ بل ہندوستان میں “جناح” کو دوبارہ زندہ کرنے کا باعث بن سکتی ہے” جنابِ والا یہ وہ الفاظ تھے جن سے میرا سر فخر سے بلند ہوگیا قربان جاؤں میں اپنے قائد کی فصاحت و بلاغت پر انہوں نے آج سے کم و بیش ایک صدی پہلے اس بات کو بھانپ لیا تھا کہ جب تک مسلمان ایک آزاد ریاست نہیں بنائیں گے تب تک ہندوستان میں اقلیت ہی رہیں گے اس لیے ایک الگ مملکت کا قیام مسلمانوں کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔
آج ہندوستان کے مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ انکے آباؤاجداد نے قائد اعظم کے نظریے سے اختلاف کر کے ان پر ظلم تو نہیں کیا ہے؟ بلکل کیا ہے اور یقیناً کیا ہے اور کچھ اب بھی کر رہے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی حالتِ زار دیکھ کر بے اختیار مجھے اپنے قائد محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے یہ کلمات یاد آتے ہیں “جو لوگ پاکستان کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ اور ان کی آنے والی نسلیں اپنی بقیہ زندگی بھارت سے وفاداری ثابت کرنے میں گزار دیں گے” آج ہمارا یہ فرض بنتا ہے قائدکو نہ صرف خراج عقیدت پیش کریں۔۔جس طرح ہم نے کیا بھی۔۔لیکن اصل ضرورت ان عملی اقدامات کی ہے کس کی بدولت قائد کا خواب تعبیر پاسکے۔۔