سوشل میڈیا کی بھرپور مہم کی بدولت اسکردو کے نوجوان محمد شبیر کو اس کا بیگ بالاآخرمل ہی گیا۔۔بیگ ملنے کی خبر بھی فوری وائرل ہوگئی اور سب نے خوشی اور اطمنان کا اظہار کیا۔
سوشل میڈیا وہ پاور ہے، جس کا استعمال مثبت کام کیلئے کیا جائے تو انقلاب لایا جاسکتا ہے، اور اگر اسکا منفی استعمال کیا جائے تو تباہی پھیلائی جاسکتی ہے۔
یعنی یہ روز روشن کی طرح عیاں حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ہر شخص پرخود بخود انتہائی بھاری ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ وہ اپنی اس طاقت وصلاحیت کوکس انداز سے استعمال کرے۔
تین روز قبل شبیر نے اپنی وڈیو شیئر کی اور انتہائی جذباتی انداز میں بتایا کہ راولپنڈی سے اسکردو جاتے ہوئے اسکا بیگ بس کی چھت سے گر کر گُم ہو گیا۔۔
یہ بتاتے ہوئے کہ بیگ میں اس کی تعلیمی دستاویزات اور والد کے برین ٹیومرکے علاج سے متعلق انتہائی ضروری کاغزات تھے جن کا ملنا ان کے علاج کیلئے اشد ضروری ہے، یہ بتاتے ہوئے شبیر رو پڑا تھا ۔۔
محمد شبیر کی یہ جذباتی وڈیو آن کی آن میں پورے پاکستان میں وائرل ہوگئی، اور پورا ملک حتی کہ پاک فوج بھی بیگ تلاش کرنے کی مہم میں شامل ہوگئی۔۔
کوئی بھی کام جب ایک قوم بن کر کیا جائے تو نتیجہ بہت ہی جلد اور نہایت خوش کن ہوتا ہے۔ گزشتہ روزہی ٹویٹر پیغام میں ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے اطلاع دی کہ محمد شبیرکا بیگ مل گیا ہے۔انہوں نے فوری رسپانس پرتمام پاکستانیوں کا شکریہ ادا کیا۔ اور بتایا کہ شبیر کو اس کا بیگ پہنچا دیا گیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ہماری قوم بہت اچھی اورذمہ دارہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ سی ایم ایچ راولپنڈی میں محمد شبیرکو والد کے علاج کیلئے مدد بھی فراہم کردی گئی ہے۔
ایک بھائی کو سچی خوشی دینے پرواقعی ہماری قوم مبارکباد کی مستحق ہے۔جس نے شبیر کے مسئلےکو اپنا مسئلہ جانا اور جب بیگ مل گیا تو اس کی خوشی کو اپنے دل میں محسوس کیا ۔ساتھ ہی ہم نے یہ بھی جانا کہ دنیا کی سب سے بڑی کامیابی اوردل کا سکون دوسروں میں خوشیاں بانٹنے میں چھپا ہے۔
دوستو ، یہ تھا سوشل میڈیا کا وہ مثبت استعمال جس سے ہم معاشرے کے دکھ درد دور کرنے کیلئے کام کرسکتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے یہی سوشل میڈیا منفی سرگرمیوں کے لئے بھی استعمال ہورہا ہے،آج ہر شہری سوشل میڈیا استعمال کرسکتا ہے، اس کے لئے اسے کسی کی اجازت یا لائنسنس کی ضرورت نہیں ہوتی۔یوں یہ معاملہ ایک طرح سے انتہائی حساس بھی ہوجاتا ہے، کیونکہ جب کروڑوں لوگوں پر یہ چیک نہیں رکھا جاسکتا کہ کون سوشل میڈیا پر کیا لکھ رہا ہے اور کیا شیئر کررہا ہے، تو اس کے لئے خود احتسابی ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے، جس کی بدولت اس پلیٹ فارم کو منفی روش سے روکا جاسکتا ہے۔بصورت دیگراس کی منفیت، کسی قوم کیلئے دشمن کی فوج کے حملے سے بھی ذیادہ خطرناک ہوسکتی ہے۔
دنیا میں عام شہری کو ڈرائیونگ یا اسلحے کا لائسنس انتہائی چھان پھٹک کر دیا جاتا ہے ، اور امیدوار کی ذہنی اور جسمانی صلاحیت کے ساتھ اسکا کردار ٓاورماضی بھی چیک کیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا بھی ایک تیز دوڑتی ہوئی کار کی مانند ہے، جس کے ڈرائیور کو انتہائی ذمہ دار ہونا لازمی ہے ۔ اسی طرح سوشل میڈیا ایک ہتھیار کی مانند بھی ہے ، جس کے پاس یہ ہتھیارہو اسے اعصابی طور پر انتہائی مضبوط اور درست فیصلے کی صلاحیت کا حامل ہونا بہت ضروری ہے۔
تو دوستو، جن پیارے لوگوں نے محمد شبیر کے بیگ کی تلاش میں مہم چلائی ، وہ اچھا دل رکھتے ہیں، لیکن اس سے ہٹ کر ان سب کے اپنے سیاسی اور مذہبی نظریات بھی ہوتے ہیں ، جن کا وہ کھل کر اظہار بھی لکھ کر اور شیئرنگ کرکے کرتے رہتے ہیں، ان سب سے درخواست ہے کہ وہ ان عوامی پلیٹ فارمز پر آکر خود کو غیر جانبدار کرلیں ، ورنہ کتنے ہی شبیر ایسے ہوں گے ، جن کا دل آپ کے انداز اور بیان سے دکھے گا، ہم نے کل یہ ثابت کیا ہے کہ شبیر کو خوشی دے کر ہم نے خود خوشی پائی ہے تو اب کسی بھی شبیر کا دل نہیں دکھنا چاہیئے۔چلو اک نئی راہ چلتے ہیں۔کھوئی ہوئی بہت سی خوشیوں کو دوبارہ پاتے ہیں۔۔شبیرہماری راہ دیکھ رہا ہے۔۔
(شعیب واجد)