مدھو بالا۔۔۔ پری چہرہ حسن و جمال میں اپنی مثال آپ ، شوخ و شنگ ادائیں اور دلکش مسکراہٹ ایسی کہ جسے دیکھتے ہی دل میں جلترنگ بج اٹھتے ، کردار ایسے ادا کیے جن پر گمان ہی نہیں ہوتا کہ وہ اداکاری کررہی ہیں۔’ بھارتی سنیما کی کوئن آف وینس ‘ کہلائیں جن کی طلسماتی اور سحر انگیز خوبصورتی سے متاثر ہو کر یونانی گلوکار Stelios Kazantzidis نے گیت بھی پیش کیا ۔
انتہائی کم عمری سے فلمی دنیا کی چکا چوند دنیا میں قدم رکھا تو شہرت اور کامیابی کا ہر دروازہ ان پر کھلتا چلا گیا۔ لیکن محبت کی متلاشی ، پیار کے لیے ترستی ہوئی آنکھیں اور جذبات اور احساسات کا ایسا سمندر اپنے اندر چھپائے ہوئے تھیں ‘ جو ان کی زندگی میں کئی طوفان لے آیا۔ جسے ٹوٹ کر چاہا ، اسے ہی نہ پا سکیں۔ درحقیقت مدھو بالا جہاں دلیپ کمار کے عشق میں اپنا سکھ و چین لٹا چکی تھیں ‘ وہیں وہ والد عطا اللہ خان کی بھی قدر کرتی تھیں۔ کسی ایک کو کھونے کو تیار نہیں تھیں لیکن جب فیصلے کی گھڑی آئی تو محبت پر والد کی شفقت اور چاہت کو ترجیح دی۔
مدھو بالا اور دلیپ کمار کی پہلی ملاقات انیس سو اکیاون میں فلم ’ترانہ ‘ کے سیٹ پر ہوئی۔ دلیپ صاحب سپر اسٹار کا درجہ رکھتے تھے ، جن کے ساتھ کام کرنے کی ہر اداکارہ کی خواہش ہوتی ۔ صنف نازک تو ان کی ایک ایک ادا پر فدا ہوجاتیں ۔ مدھو بالا، خوبرو دلیپ کمار کی مردانہ وجاہت کو دیکھ کر ہر لڑکی کی طرح ان کی محبت کی اسیر بن گئی۔ ادھر دلیپ کمار کے دل میں بھی اس سادہ لیکن پری چہرہ دوشیزہ کے لیے محبت کے پھول کھلے، بس دل کی بات زباں پر آنے کا انتظار تھا ، اس سلسلے میں مدھو بالا بازی لے گئیں ۔ رومانی خط سرخ گلاب کے ساتھ دلیپ صاحب کو روانہ کیا۔جس میں تحریر تھا کہ ’ ہاں ‘ کی صورت میں یہ پھول اپنے پاس رکھ سکتے ہیں اور انکار پر دونوں چیزیں واپس کی جاسکتی ہیں ۔دلیپ کمار کو دل چرانے کا یہ انداز اس قدر پسند آیا کہ اقرار کیے بغیر نہ رہ پائے اور پھر فاصلے گھٹتے چلے گئے ، ساتھ جینے مرنے کے وعدے اور قسمیں کھائی گئیں اور محبت کی گاڑی حسین وادی کی راہ پر رواں دواں بڑھنے لگی۔۔۔
جس طرح ہر فلم میں ہیرو اور ہیروئن ہوتے ہیں ، اسی طرح ظالم سماج یا پھر ولن ،۔۔ دلیپ کمار اور مدھو بالا کی اس پیار بھری کہانی میں ولن کے روپ میں مدھو بالا کے والد عطا اللہ خان جلوہ گر ہوئے۔ جنہیں کسی صورت یہ پسند نہیں تھا کہ ان کی لاڈلی اور کماو ¿ پوت بیٹی کے پیروں میں پیار کی زنجیریں ڈلی ہوں، ان کے نزدیک مدھو بالا ، کمائی کا ذریعہ تھیں ، جن کے دم سے ان کے گھر کے گھپ اندھیرے دور ہوئے تھے ۔ اسی لیے وہ راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے لگے اور جب پیار حد سے تجاوز کرگیا تو دلیپ کمار نے وہی طریقہ اختیار کیا جو عام طور پر شریف گھرانوں کے لڑکے کرتے ہیں ، بڑی بہن سکینہ کو مدھو بالا کے گھر پیغام لے کر بھیجا لیکن عطا اللہ خان نے گھر تک پہنچنے والے اس طوفان کو پیچھے دھکیلتے ہوئے دو ٹوک لفظوں میں ’ ناں ‘ کردی ۔
اب یہ پیار کی راہ کے مسافر چھپ چھپ کر ملنے لگے۔ انیس سو چھپن میں مدھو بالا ’ ڈھاکہ کی ململ ‘ کی عکس بندی میں مصروف تھیں اور دلیپ کمار اکثر و بیشتر اس کے سیٹ پر موجود ہوتے۔ ایک روز انہوں نے اداکار اوم پرکاش کے سامنے مدھو بالا کو بھاگ کر شادی کرنے کی پیش کش کی۔ دلیپ صاحب کا کہنا تھا کہ وہ ساری تیاریاں مکمل کرچکے ہیں۔ قاضی بھی تیار ہے بس انتظار ہے تو مدھو بالا کے قدم بڑھانے کا ، دل نشین اداکارہ اب تذبذب اور شش و پنج سے دوچار ہوگئیں ، باپ سے بغاوت کرنے پر آمادہ تھیں۔ ذہن میں یہ بھی آیا کہ چند دنوں بعد ہوسکتا ہے کہ والد کی ناراضگی دور ہوجائے ، ان کی اسی سوچ کے تالاب میں دلیپ کمار نے جب اس مطالبے کا پتھر مارا کہ نکاح کی شرط صرف یہ ہے کہ وہ عطا اللہ خان سے مکمل لاتعلقی ظاہر کریں گی تو یک جنبش انہیں والد کی وہ شب رو ز محنت یاد آئی جو انہوں نے مدھو بالا کو اداکارہ بنانے کے لیے کی تھی۔ ایک اسٹوڈیو سے دوسرے تک کا سفر ، گھر کے نامساعد حالات ، اہل خانہ کیا کریں گے ؟ یہ باتیں انہیں بے سکون کرنے لگیں ۔جبھی ان پر لمبی خاموشی کی کیفیت طاری ہوگئی۔
دلیپ کمار جواب کے منتظر تھے اور مدھو بالا کی یہ خاموشی ’ انکار ‘ کی جانب اشارہ کررہی تھی ، دلیپ کمار کو جواب مل چکا تھا ، وہ انتہائی غصے کے عالم میں اٹھے اور پھر پیچھے پلٹ کر دیکھے بغیر مدھو بالا کی رومانی زندگی سے نکل گئے ، مدھو بالا انہیں جاتے ہوئے دیکھ رہی تھیں ، دل دھڑک ضرور رہا تھا لیکن وہ مستقبل کے حالات اور واقعات کا سوچ کر اپنے عاشق کو ناکام اور نامرادجاتے ہوئے شکستہ دل کے ساتھ دیکھتی رہیں ۔ دونوں کے راستے اب جدا ہوگئے تھے۔ فلموں میں تو ضرور کام کرتے لیکن اب دل کے آنگن میں کھلے ہوئے پیار کے پھول مرجھا چکے تھے۔
گو کہ مدھو بالا اور دلیپ کمار کے درمیان دوریاں اور فاصلے بڑھ گئے تھے لیکن عطا اللہ خان کو شک تھا کہ دل میں سوراخ رکھنے والی مریضہ بیٹی کے دل کے کسی کونے کھدرے میں پیار کا احساس ضرور کروٹیں لیتا ہے ۔ اسی بنا پر انہوں نے انیس سو ستاون میں ہدایتکار بی آر چوپڑہ کی زیرتکمیل فلم ’ نیا دور ‘ کے لیے مدھو بالا کی جانب سے کام کرنے پر معذرت کرلی۔ جس پر بی آر چوپڑہ چراغ پا ہوگئے۔ عطا اللہ خان کا الزام تھا کہ ہدایتکار جان بوجھ کر فلم کی عکس بندی ممبئی کے بجائے بھوپال میں کررہے ہیں تاکہ مدھو بالا اور دلیپ کمار کو تنہائی میسر ہو ۔بی آر چوپڑہ نے بھی اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے چند ہی دنوں میں اخبار میں ’ نیا دور ‘ کا اشتہار شائع کرایا جس میں ہیروئن مدھو بالا کے نام پر ’ کراس ‘ لگا کر نیچے وجنتی مالا کا نام تحریر تھا۔ عطا اللہ خان بھی کہاں تھکنے والے تھے ، انہوں نے بھی مدھو بالا کی آنے والی فلموں سے متعلق ایک اشتہار بنوایا جس میں ’ نیا دور ‘ کے اوپر ’ کراس ‘ کا نشان تھا اور وہ شائع کراکے اپنی تئیں ہدایتکار کو کرارا جواب دے کر ان پر یہ مقدمہ بھی کردیا کہ انہوں نے بغیر وجہ بتائے مدھو بالا کو فلم سے بے دخل کیا ۔ اسے بی آر چوپڑہ نے اپنی توہین سمجھا ، اور اسی لیے جو معاملہ رفع دفع ہوگیا تھا اس نے قانونی جنگ کا روپ دھار لیا ۔ ممبئی کی مقامی عدالت میں مقدمہ چلا۔ ہدایتکار کا مطالبہ تھا کہ مدھو بالا نے جو ’ سائننگ رقم ‘ وصول کی تھی وہ واپس کی جائے۔ کئی ہفتوں تک بی آر چوپڑہ اور عطا اللہ خان کی پیشیاں ہوتی رہیں، یہاں تک کہ عدالت میں دلیپ کمار اور مدھو بالا کے عشق معاشقے کا بھی چرچا ہوا اور پھر وہ وقت بھی آیا جب عدالت نے دلیپ کمار کو طلب کیا۔
سب کو تجسس یہ تھا کہ آخر دلیپ کمار کس کے حق میں بیان دیتے ہیں۔ اس مرحلے پر دلیپ صاحب نے مجسٹریٹ عارف پاریکھ کی اس عدالت میں بی آر چوپڑہ کا ساتھ دیا۔ اور کچھ ایسے ثبوت پیش کیے کہ عطا اللہ خان یہ مقدمہ ہار گئے۔ بھری عدالت میں دلیپ کمار نے سب کے سامنے مدھو بالا سے اظہار محبت بھی کیا۔ انہوں نے انتہائی تکلیف دہ لہجے میں کہا کہ جو خاتون یہاں بیٹھی ہیں ، ان سے انہوں نے دل کی گہرائیوں سے ٹوٹ کر محبت کی۔ اور زندگی کی آخری سانس تک محبت کرتے رہیں گے ۔۔لیکن مدھو بالا کا دل موم نہیں ہوسکا بلکہ وہ اب اور دلیپ کمار سے دور ہوتی گئیں ، انہیں یہ دکھ اور کرب تھا کہ دلیپ کمار نے ان کے والد کے خلاف کیوں بیان دیا۔
اِدھر دلیپ کمار کو یہ غصہ تھا کہ مدھو بالا نے ان کی محبت کو کیوں ٹھکرایا۔ شہرہ آفاق فلم ’ مغل اعظم ‘ کی عکس بندی کے دوران دونوں میں بات چیت مکمل بند تھی۔دونوں الگ الگ ریہرسل کرتے ۔ فلم کے ایک منظر میں جس میں شہزادہ سلیم ، انار کلی کو بے وفائی کا طعنہ دے کر طمانچہ رسید کرتا ہے ۔ اس منظر میں دلیپ کمار نے مدھو بالا کو واقعی ایسا زناٹے دار طمانچہ رسید کیا کہ مدھو بالا کا گال لال ہوگیا۔ جبکہ اس تھپڑ کی گونج ایسی تھی کہ سیٹ پر سناٹا چھا گیا ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مدھو بالا کی زندگی میں دلیپ کمار کی جگہ کوئی اور نہ لے سکا۔ گو کہ کشور کمار سے بیاہ رچایا مگر وہ کسی صورت دلیپ کمار کو بھلا نہ سکیں۔ زندگی کے آخری ایام میں جب وہ شدید علیل تھیں تو دلیپ کمار کو پیغام بھیجا کہ وہ ان سے ملنا چاہتی ہیں۔ دونوں کی ملاقات ہوئی۔ مدھو بالا نے دلیپ کمار سے وعدہ لیا کہ جب وہ صحت یاب ہوجائیں گی‘ تو وہ ان کے ساتھ ضرور فلموں میں کام کریں گی۔ لیکن موت نے اس حسین اداکارہ کو زیادہ مہلت نہ دی اور وہ تئیس فروری انیس سو انہتر کو صرف چھتیس برس کی عمر میں اُس جہاں کی مہمان بن گئیں جہاں سے کسی کی واپسی نہیں ہوتی۔ مدھو بالا کی وفات کے وقت دلیپ کمار مدراس میں ’ گوپی ‘ کی عکس بندی میں مصروف تھے۔ سیٹ پر ہی انہیں یہ خبر ملی اور جب وہ شام تک واپس ممبئی آئے تو سیدھے قبرستان گئے۔ اور خاصی دیر تک مدھو بالا کی قبر پر بیٹھ کر آنسو بہاتے رہے ۔
Sufyan Khan , Karachi