کہا جاتا ہے کہ جب امریکی حکومت نے پاکستان پر ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ درآمد کرنے کے خلاف مہم چلائی تو فرانس نے اس کے دباؤ پرگھٹنے ٹیک دیئے۔اور پاکستان سے اپنا معاہدہ منسوخ کردیا۔ ایسے میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کیلئے مشینری کی خفیہ درآمد اور پاکستان منتقلی میں اہم کردار جس شخصیت نے ادا کیا ، وہ سیٹھ عابد حسین مرحوم تھے ۔یہ کہانی سچ ہے یا جھوٹ اس کی تصدیق آج تک نہیں ہوسکی۔تاہم بعض معتبر شخصیات اتنی تصدیق ضرور کرتی ہیں کہ سیٹھ عابد کی پاکستان کی سلامتی کیلئے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
سیٹھ عابد کے حوالے سے ایک اور دلچسپ کہانی بھی مشہور ہے وہ یہ کہ کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک زمانے میں ان سے 5 کروڑ روپے پیپلز پارٹی کے لیے بطور فنڈ طلب کئے۔ تاہم سیٹھ عابد نے انکار کردیا۔ جواب میں ان کے خلاف کارروائیاں شروع کردی گئیں۔ لاہور میں سیٹھ عابد کی اکلوتی بیٹی نصرت شاہین کی گرفتاری عمل میں آئی۔ لیکن جوابی وار بھی کرارا ہوا۔ اور ادھرلندن میں زیر تعلیم بے نظیر بھٹو کو اغوا کرلیا. گیا۔ بعد میں سمجھوتے کے تحت دونوں لڑکیوں کی رہائی عمل میں آئی۔تاہم یہ واقعہ بھی سینہ بی سینہ چلنے والی داستانوں میں سے ایک ہے۔اس میں حقیقت کتنی ہے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
شیخ عابد حسین کا آبائی تعلق پنجاب کے ضلع ’قصور‘ سے تھا۔ ان کے والد کاروبار کے سلسلے میں کراچی منتقل ہو گئے تھے۔ سیٹھ عابد کے والد بھی سونے اور چاندی کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ ان کا خاندانی کاروبار تھا۔
کاروبار سے منسلک سیٹھ عابد کو اسے بام عروج پر پہنچانے کی دھن تھی ۔ اپریل 1958 میں لاہور جانے والے ایک مسافر کو کراچی ایئرپورٹ پر روکا گیا تو ان کے پاس سے 3100 تولہ سونا برآمد ہوا۔ کراچی کسٹم حکام نے جب پریس ہینڈ آؤٹ میں بتایا کہ انھوں نے 2000 تولے سونا ضبط کیا ہے تو پولیس کی تحویل میں موجود اس مسافر نے ان کی تصحیح کی کہ یہ 2000 نہیں 3100 تولے سونا تھا۔یہ مسافر سیٹھ عابد تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ان ہی دنوں سیٹھ عابد پارٹنر کے ساتھ خلیج کے کسی ملک سے سونا اسمگل کر کے پاکستان لا رہے تھے کہ جنرل ایوب خان نے مارشل لا نافذ کر دیا. دونوں نے مل کر بحیرۂ عرب میں کہیں سونے کو چھپا دیا۔ بعد میں پارٹنر کا انتقال ہوگیا تو سونا سیٹھ عابد کی ملکیت میں آگیا۔۔
لاہور سے نکلنے والے ایک اخبار نے سنہ 1977 میں اس شخص کو کچھ ایسے بیان کیا ’گولڈن مفرور، ایک غیر معمولی شخص، بھیس بدلنے کا ماہر اور لومڑی جیسا چالاک ۔
سیٹھ عابد پاکستان کے علاوہ دنیا کی کئی ملکوں کی پولیس کو مطلوب تھے،ان کا نام انٹرپول کی فہرست میں بھی شامل تھا اور یہ اکثر دلی، دبئی اور لندن کا سفرکرتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ لندن، دلی اور دبئی میں رابطوں کے ساتھ سیٹھ عابد نے 1950 سے 1980 کے دوران سونے کی اسمگلنگ پر اجارہ داری قائم کرکے خطے میں بھارتی اسمگلروں کا نیٹ ورک تباہ کردیا تھا۔ 1963 میں ٹائمز آف انڈیا نےلکھا کہ پاکستان کے ’گولڈ کنگ‘ کے بھارت میں ’روابط‘ ہیں،ان کے بہنوئی کو دلی میں سونے کی 44 اینٹوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا ہے۔برٹش ایئرویز میں کام کرنے والے چارلس میلونی کو سیٹھ عابد کا برطانیہ میں ’سہولت کار‘ کہا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں سیٹھ عابد کے خلاف کئی دیگر کارروائیاں بھی ہوئیں۔ 1974 میں لاہورمیں سیٹھ عابد کی رہائش گاہ پر پولیس کے چھاپے میں پاکستانی کرنسی جس کی اس وقت مالیت تقریباً 12.5 ملین تھی برآمد ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ چالیس لاکھ مالیت کا سونا، 20 لاکھ مالیت کی سوئس گھڑیاں بھی برآمد ہوئیں۔ وزیر اعظم بھٹو نے ’سیٹھ عابد انٹرنیشنل سمگلنگ کیس‘ کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی ٹریبونل قائم کیا۔ تاہم سیٹھ عابد ٹریبونل کے سامنے کبھی پیش نہ ہوئے۔ملک کے طول و عرض میں ان کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جاتے رہے۔
تاہم ستمبر 1977 میں سیٹھ عابد نے ضیا حکومت میں سرنڈر کیا،اس کے بعد ان کے معاملات بہتر ہونے لگے۔ان دنوں سیٹھ عابد نے فلاحی کاموں کیلئے بھی پیسہ لگانا شروع کیا۔خصوصاً اسپتالوں کیلئے انہوں نے بڑے عطیات دیئے۔
اخبارات نے انھیں ہمیشہ ’ پاکستانی سونے کے اسمگلر‘ کی حیثیت سے پیش کیا ۔سیٹھ عابد کو اس پر گلہ رہا۔ اپنے وژن کو واضح کرتے ہوئے سیٹھ عابد نے لاہور کے ایک اخبار کے ایڈیٹر کو بتایا: ’مجھے سونے کا اسمگلر کیوں کہا جاتا ہے؟ میں اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی شادیوں کے لیے سستا سونا فراہم کرتا ہوں۔ میں معاشرے اور ریاست کے لیےبھی عمدہ خدمات انجام دے رہا ہوں۔مگر کسی بھی تعریف اور پہچان کی بجائے میں بدنام ہوچکا ہوں۔
نومبر 2006 میں سیٹھ عابد کو گہرے صدمے کا سامنا کرنا پڑا ، جب ان کے بیٹے حافظ ایاز کو ان کے گارڈ نے لاہور میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا ۔سیٹھ عابد کے دو بیٹے اور بھی ہیں تاہم وہمعذور ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کا سیٹھ عابد کے بارے میں کہنا ہے کہ سیٹھ عابد نے شوکت خانم کینسر اسپتال کیلئے بھی بہت مدد کی تھی۔
چوہدری شجاعت حسین کے مطابق بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہوں گے کہ سیٹھ عابد کی پاکستان کے تحفظ و سالمیت کیلئے بہت سی خدمات ہیں۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ سیٹھ عابد نے جو قومی خدمات ادا کیں وہ بہت ہی کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہیں۔
سیٹھ عابد حسین علالت کے بعد نو جنوری 2021 کو 85 برس کی عمر میں کراچی کے ایک اسپتال میں انتقال کرگئے۔انہیں شہر قائد کے ماڈل کالونی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔