تحریر: زہرا یاسمین.
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے وابستہ اہل فلسطین کے لیے یہ’’ری بلڈ‘‘کا یہ عمل اتنا آسان نہیں۔
اس وقت ان کے پاس پیسوں اور جدید ٹیکنالوجی کی کمی ضرور ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں یقین ہے وہ اپنے آہنی حوصلے اور چٹانوں جیسے عزم و ہمت اور رب العزت کی مدد کے بل پر دوبارہ سے گھر مکان ہسپتال دکانیں وغیرہ مطلوبہ ضرورت کی حد تک بنا لیں گے۔ ان شاءاللہ۔ لیکن گھر تو مکینوں سے گھر والوں سے اور خاندانوں سے بنتےہیں لیکن یہاں تو ادھورے بکھرے بچے کھچے خاندانوں کواپنی مدد آپ کے تحت ری بلڈ خود ہی کرنا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنکے خود ہی ٹوٹے پھوٹے ادھورے بکھرے بچے کھچے خاندان کے افراد ساتھ ہیں ان میں بہت سے تو اپنے قیمتی رشتوں کو کھو چکے ہیں ان سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ چکے ہیں، جدا ہوگئے ہیں، کس قدر مشکل مرحلہ ہے ان اہل فلسطین کے لیے جنہیں جہاد اکبر سے جہاد اصغر کامرحلہ درپیش ہے اہل فلسطین کا جذبہ دیکھ کچھ مخصوص جملے ذہن میں آتے جارہے ہیں؟ کیا چیز ہو تم بھئی؟ اوئے کون لوگ ہو تسی؟
ارے بھئی تم کس جہاں کی مخلوق ہو؟ وہ غم تو اور ہی ہوتے ہیں۔ یہ لوگ تو لگتا ہے آہنی اعصاب کے مالک ہیں۔ یہ تو چٹانوں کا سینہ چیرنے والے ہیں اور سیسہ پلائی دیوار کی مانند ڈٹ جانے والے لوگ ہیں۔ وغیرہ ۔ واقعی اہل فلسطین کے عزم و حوصلے اور ایمانی قوت کے آگے شاید ہم اس سے ذیادہ کہنے اور سوچنےکا یارا ہی نہیں رکھتے ہیں، اہل فلسطین تویہ جانتے ہی نہیں ہیں کہ *کہتی ان کو خلق خدا غائبانہ کیا ؟ انکے بارے میں بس یہی کہا جاسکتا ہےکہ،،،
جن کے دل میں ایمان ہو حوصلے چٹان ہوں انہیں کیا جھکا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا