اس ملک کے نجانے کتنے جوان انقلاب کی آرزو میں ادھیڑ عمری اور بڑھاپے تک جا پہنچتے ہیں ۔جن کی منزلِ مراد دور بہت دور کسی دھندلکے میں پنہاں ہیں ۔ان نوجوانوں کی کوئی تخصیص نہیں کوئی سا بھی گروہ ہو ان کی حالت ایک ہی سی ہے ۔ چاہے جمہور کی بالادستی کا خواہاں ہو یا اشتراکیت کا نیم بسمل۔ یا پھر سیاسی اسلام کی حاکمیت کاخواہش مند۔نوکریوں کی ذلت۔ ریاست کی بے توجہی۔ قیادت کی نرگسیت اور گروہوں کی بے سمت عاجلانہ منصوبہ بندیاں بے شمار جوانیاں نگل گئیں۔
سب سے قابل رحم حالت قوم پرستی کی لاش گھسیٹتے ان نوجوانوں کی رہی جن کے رہنماؤں کا انداز سیاست اور بیانیہ اپنی ہی قوم کےلیے زہرِ قاتل اور نفرتوں کا پرچارک ثابت ہوا۔ سرزمین چاہے شاہ لطیف کی ہو یا خوش حال خان خٹک کی۔چاکر خان کی جنم بھومی ہو یا شہر قائد کی شاہراہیں ۔ اپنے ہم زبانوں کے لہو سے رنگین ہوتی رہی ۔ قوم پرستانہ سوچ مظلوم عوام کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرتی رہی ۔ عربی مقولے العوام کالانعام کے مصداق لوگ بھی ہر ایسے سیاسی گروہ کی حمایت پر کمر بستہ نظر آتے ہیں جو صرف نعروں کی بلند آہنگی کا قائل ہو ۔ مخالفین کے لیے دشنام ہی دشنام رکھتا ہو اور بزعمِ خود حق کا پاسبان سمجھتا ہو ۔ بات اب صرف ذرائع ابلاغ میں موثر طریقے سے نفوذ کی ہے۔ جب تمام ابلاغی ادارے صرف سیاست اور سیاست دانوں کی بدعنوانیوں کی خبروں اور معاشرے کی ان خبروں پر توجہ مرکوز کرتے رہیں گے جو شائع یا نشر نہ بھی ہوں تو اس سے ملک و قوم کی ترقی اور عوامی شعور کوئی کمی نہ آئے ۔
میڈیا اور اس کے ساتھ سماجی رابطوں کا میڈیم جسے سوشل میڈیا کہا جاتا ہے، تعلیم، صحت، روزگار، مہنگائی، اداروں کی مضبوطی اور عوامی شعور کی ترقی کے حوالے سے کوئی ایسا راستہ اختیار نہیں کرتے جو قوم کو منزل مراد کی جانب لے جانے میں معاون ہو۔صورت حال یہی رہے گی۔ ملکی ترقی ایک خواب ہی رہے گی۔ پاکستان میں سوچ کی انتہا پسندی میں جتنا اضافہ گزشتہ ایک عشرے میں ہوا، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ بھارت کی مثال اس سے بدترین ہے، جہاں نریندر مودی جیسے فرد کو رہنما بنا کر وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچایا گیا۔ اس پر مستزاد بھارتی حزب اختلاف کا انتشار ہے جو انتہا پسندی کے آگے بند باندھنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ یہ پیرا گراف بنیادی طور پر جملہ ہائے معترضات کے طور پر پڑھا جائے کہ صرف مثال دینا مقصود تھی کہ بھارت میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھاری ہندوؤں میں انتہا پسندی پہلے سے زیادہ بڑھی ہے اور اس میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ بات تھی وطنِ عزیز کی، جہاں اب بھی ملک کی ساٹھ فیصد اکثریت جو جوان العمر افراد پر مشتمل ہے، بے سمت رواں ہے۔ اس طبقے کو ملکی ترقی کی دوڑ میں شامل کرنے کے لیے نہ صرف مربوط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے بلکہ انہیں ان کی قابلیت کے مطابق شعبوں میں کھپانا ملک کے بہتر مستقبل کے لیے از حد ضروری ہے ۔ فکر و نظر کے اس انتشار میں اللہ، بلھے شاہ اور وارث شاہ کے چاہنے والوں کو بنامِ جمہوریت کسی گھرانے کی بالادستی کے جنون سے محفوظ رکھے۔
(تحریر:سہیل جمالی)