جج صاحبان کو اپنی حدود کا علم اس وقت کیوں نہیں ہوتا جب قصور کی ننھی زینب کا قاتل پکڑا جاتا ہے، جب کراچی کی ننھی امل ایک بڑے اسپتال کی نا اہلی کے سبب اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے، جب شکار پور کا بارہ سالہ میر حسن ابڑو کتے کے کاٹے کی ویکسین نہ ہونے کے سبب اپنی ماں کے ہاتھوں میں دم توڑ دیتا ہے۔
معزز جج صاحبان کو اس وقت بھی اپنی حد کا علم نہیں ہوا جب 2015 میں بلاول زرداری کی سول اسپتال کراچی آمد کے موقع پر دس ماہ کی ننھی بسما نے اپنے باپ کے ہاتھوں میں صرف اس وجہ سے دم توڑ دیا کیونکہ اس وقت پروٹوکول لگا ہوا تھا اور بسما کا باپ اپنی بیٹی کو گود میں اٹھائے سول اسپتال کے دروازے پہ کھڑا تھا۔
جج صاحب اس طرح کے درجنوں واقعات ہیں جب آپ کو اپنی حد کاعلم نہیں ہوا، اور آپ کو اپنی حد کا علم اس وقت ہوا جب آپ ریٹائر ہونے والے ہیں، کسی غریب کو تو آج تک انصاف نہ مل سکا ورنہ سیالکوٹ کی ماں پروین اختر کو اپنے بیٹے کے قاتل کو اس وجہ سے نہ مارنا پڑتا کیونکہ آپ ہی کی ایک معزز عدالت نے اس قاتل نعمان کو قتل کے قدمے سے بری کر دیا تھا۔
جج صاحب یاد رکھنا اوپر بھی ایک عدالت ہوگی جہاں کوئی سفارش یا رشوت نہیں چل سکے گی اور وہاں صرف اور صرف انصاف ہوگا۔