تحریر: ثروت اقبال.
اسلام میں خلوت کو ایک نہایت اہم مقام حاصل ہے کیونکہ یہی وہ وقت ہے جب انسان اپنے دل کی گہرائیوں میں اتر کر اللہ کی رضا کے لیے سوچتا ہے اور اپنی زندگی کے مقصد کو پہچانتا ہے۔تنہائی صرف جسمانی طور پر اکیلا ہونے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ذہنی اور روحانی کیفیت ہے جس میں انسان دنیا کی تمام رکاوٹوں سے آزاد ہو کر اپنے اندر جھانکتا ہے۔ یہاں وہ اپنے اعمال، نیتوں اور دل کی حالت کا جائزہ لیتا ہے اور پھر اللہ کی جانب رجوع کرتا ہے۔ خلوت ایک ایسا موقع فراہم کرتی ہے جب انسان ہر قسم کی دنیاوی الجھنوں سے آزاد ہو کر اپنے روحانی سفر پر غور و فکر کرتا ہے۔
جب انسان تنہائی میں ہوتا ہے تو اس کے دل میں اللہ کا خوف اور اس کی محبت بڑھتی ہے کیونکہ اس وقت وہ صرف اللہ کے سامنے ہوتا ہے۔ کوئی انسان یا دنیاوی چیز اس کے درمیان نہیں آتی۔ اس وقت کی عبادت سب سے زیادہ قیمتی اور خالص ہوتی ہے۔لہٰذا گناہ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ اپنے دل میں یہ احساس پیدا کرے کہ اللہ تعالی مجھے ہر وقت دیکھ رہے ہیں، خواہ میں لوگوں کے سامنے ہوں یا لوگوں سے پوشیدہ ہوں، میں کسی حال میں بھی اللہ تعالی سے مخفی نہیں ہوسکتا۔ایمان کی معراج خلوت میں ہی حاصل ہوتی ہے۔ جب انسان اپنی ذات سے جڑتا ہے اور دل کی گہرائیوں میں اللہ کی ہدایات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔
جب انسان دنیا کی مادیات اور اس کے فریب سے دور رہتا ہے تو وہ اللہ کی رضا کے لیے زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے انسان کا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور وہ اللہ کے احکام پر چلنے کی سچی کوشش کرتا ہے۔ذکرِ الٰہی جیسے “سبحان اللہ”، “الحمدللہ”، “اللہ اکبر” وغیرہ پڑھنے سے انسان اللہ کی یاد میں رہتا ہے اور اس کا دل نرم اور پاکیزہ ہو جاتا ہے۔ صاحب علم فرماتے ہیں “اگر تم تقویٰ اختیار کر لو تو تمہاری دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی۔””جس شخص میں تقویٰ ہو اس کی زبان ہمیشہ سچ بولتی ہے اور اس کا دل پاک ہوتا ہے۔” امام غزالیؒ نے فرمایا: “تقویٰ کا مقصد صرف گناہوں سے بچنا نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے لیے ہر عمل کو بہترین بنانا ہے۔”تقویٰ انسان کو اس کی فطرت کے قریب لے آتا ہے اور زندگی کو سچے اور پائیدار راستے پر گامزن کرتا ہے۔تنہائی میں انسان کے پاس اپنے اندر کی خواہشات اور جذبات پر قابو پانے کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ دنیا کی تمام لذتوں سے دور رہ کر انسان اپنے نفس کو قابو میں رکھ سکتا ہے۔ جس سے تقویٰ کی روح پیدا ہوتی ہے۔
جو لوگ اپنے نفس کو قابو میں رکھتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں۔تنہائی میں خشیت الہی مغفرت اور جنت کا راستہ ہے۔بیشک جو لوگ اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں ان کیلیے مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے۔ہمیں اپنے ظاہر اور باطن کی کڑی نگرانی رکھنی چاہیے۔ اپنے باطن کو ظاہر کر دیں اور ظاہر کو باطن کر لیں۔۔۔ ظاہر اور باطن میں تضاد نہ ہو۔ تقوی تب ہی حاصل ہو سکتا ہے۔تنہائی میں ایک انسان کا دل اور دماغ عبادت کے لیے کھلا ہوتا ہے۔ انسان نماز، ذکر، اور تلاوت قرآن میں وقت گزار سکتا ہے۔ ان عبادات کے ذریعے دل کی سکونت بڑھتی ہے اور تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ خاص طور پر رات کی تنہائی میں جب انسان اللہ کے سامنے سر جھکاتا ہے وہ روحانیت کا اعلیٰ ترین مقام حاصل کرتا ہے۔خلوت میں تقویٰ اور ایمان کی معراج پانا ایک روحانی سفر ہے جو انسان کو اللہ کے قریب لے جاتا ہے۔ یہ وقت اللہ کی رضا کے لیے خود کو بہتر بنانے کا، اپنے دل کو صاف کرنے کا اور اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھنے کا ہوتا ہے۔ تنہائی میں انسان اللہ کے سامنے اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتا ہے۔ اس کا دل اللہ کی محبت اور خوف سے معمور ہوتا ہے اور یہی وہ کیفیت ہے جو انسان کو ایمان کی معراج تک پہنچاتی ہے۔