کرشنا کماری کولھی
سندھ کا وہ چہرہ ہے جس کی دھرتی سے محبت کی قسمیں یا تو بھٹائی نے ماروی کا نام لے کر کھائی ہیں یا پھر اس دھرتی نے دیکھی ہیں ہے جس پر وہ تب بیڑیاں پہن کر پڑی تھی جب اس کے کھیلنے کے دن تھے۔
یہ عمر کوٹ کے وڈٰیرے کی نجی جیل تھی جہاں تیسری جماعت کی کرشنا کماری اپنے خاندان سمیت تین سال تک قید رہی لیکن ہر اندھیرے کے بعد اجالا ہوتا ہے۔ قید کی کالی رات ختم ہوئی کرشنا کماری نے علم کی لو جگائی ۔۔۔ جہد مسلسل کا آغاز کیا یہاں تک کہ وہ اب سینیٹ کی نشست پر براجمان ہونے والی ہیں۔۔۔
لیکن کرشنا کماری کا تعارف صرف یہی نہیں ہے۔۔۔
کرشنا کماری جنگ آزادی کے مجاہد روپلو کولھی کی پڑ پوتی ہیں۔۔۔
روپلو کولھی کون؟
اٹھارہ سو ستاون میں انگریز سندھ پر حملہ کرتا ہے۔ روپلو کولھی راجپوت مکھیہ رانا کرن سنگھ کے آٹھ سو جنگجوؤں کی قیادت کرتے ہوئے جنگ جوت دیتا ہے۔ کارونجھر کے پہاڑ اور تھر کا بھورا ریت ۔۔۔ دو سال تک انگریز بہادر کےلئے روپلو کولھی چھلاوا بنا رہا۔ اٹھارہ سو انسٹھ میں کنویں پر اپنے فوجیوں کو پانی پلاتے ہوئے روپلو پکڑا گیا۔ انگریز فوج نے پہلے روپلو کے کئی جنگجوؤں کو کپاس کی بوریوں میں ڈال کر آگ لگادی پھر روپلو کو پیشکش کی کہ رانا کرن سنگھ کے ٹھکانے بتاؤ اور نئی زندگی پاؤ۔ لیکن انگریز نہیں جانتا تھا کہ غداری اس دھرتی کے خمیر میں ہی نہیں۔۔۔
کرشنا کماری ۔۔۔۔ میناوتی کی پڑ پوتی بھی ہیں۔۔۔
میناوتی کون؟
جب روپلو کولھی کو انگریز بہادر نے جان بخشی کے عوض کرن سنگھ کے ٹھکانے بتانے کی پیشکش کی۔۔۔ ایک آواز کارونجھر سے بھی اونچی گونج رہی تھی۔ آواز کیا تھی ایک شیرنی کی دھاڑ تھی۔۔
روپلا ! اگر تم نے سودا کرلیا تو کولھنیاں مجھے طعنے دیں گی۔ مجھے غدار کی بیوی کہیں گی۔ میں تمہارا مرا ہوا منہ دیکھ سکتی ہوں، خود کو بیوہ کہلوا لوں گی لیکن غدار کی بیوی کہلوانا مجھے قبول نہیںَ۔۔
روپلو لیکن اپنا فیصلہ پہلے ہی سنا چکا تھا۔ بائیس اگست انیس سو انسٹھ کو غیرت مند سپوت ببول کے درخت سے لٹکا کر پھانسی چڑھادیے گئے۔ تاریخ لکھ دی گئی۔۔
روپلو کی موت کے بعد اس کی والدہ کسر بائی خاندان سمیت کنری منتقل ہوگئی جو اس وقت میرپورخاص کا حصہ تھا۔ پھر تاریخ کا وہ بےرحم وقت آیا جب اس عظیم ہیرو کا خاندان ایک وڈیرے کے ظلم کا شکار ہوا لیکن ظلم آخر ظلم ہے۔۔ آج وہ وڈیرہ ہے نہ اس کی جیل لیکن مینا کماری ہے ۔۔۔ پیپلزپارٹی نے جب مینا کماری کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے کا اعلان کیا تو ایسے لگا جیسے محکوموں کی سن لی گئی ہو۔۔۔ جیسے روپلو اور میناوتی پھر زندہ ہوگئے ہوں۔ جیسے اس وڈیرے کی لاش کو آگ لگادی گئی ہو۔۔۔ کیونکہ یہ اس دھرتی کے سپوت ہیں جو جھکتے نہیں۔۔ جو بکتے نہیں۔۔ اور نہ ہی سینیٹ کی ایک سیٹ کےلئے پوری قوم کو ہیجان میں مبتلا کردیتے ہیں۔۔۔
ساحر بلوچ