سچی کہانیاں ۔۔ پراسرار کبوتر

کہدو پاک پر یہ کالم دیکھ کر خیال آیا کہ میں بھی اپنا ایک سچا واقعہ شیئر کرتی چلوں۔۔کچھ واقعات زندگی میں ایسے پیش آتے ہیں کہ معمہ ہی بن جاتے ہیں۔۔اور لگتا یہ ہے کہ وہ معمہ زندگی میں کبھی حل ہی نہ ہوپائے گا۔ اور بس راز ہی بن کر رہ جائے گا۔

یہ 1998 کی بات ہے ہم گرمیوں کی چھٹیوں میں سکھر سے اپنی خالہ کے گھر رہنے کراچی آئے۔۔ میں کوثر شیخ اپنے ممی پاپا کے ساتھ کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن پہنچی۔۔ ہمارا پہنچنا تھا کہ جیسے خالہ کے گھر میں جشن کا سماں ہوگیا۔۔ ہماری خوب آؤ بھگت کی گئی۔۔خالہ نے مجھے گلے لگایا ،میرے کزنز نے میرے گرد گھیرا ڈال دیا۔۔ میں ان دنوں سترہ برس کی تھی۔شاہ میر ، شبانہ اور اقرا میرے کزنز تھے۔یہ لوگ بھی کئی بار سکھر آچکے تھے، مگر ہمارا کراچی آنا کم ہی ہوتا تھا ۔ اس بار ہمارا چکر پانچ سال بعد لگا تھا، ہمارے آنے سے خالہ کے گھر میں پارٹی کا سماں تھا اور گھر کا روٹین تفریح اور دعوتوں میں بدل گیا تھا۔

ایک روز ممی پاپا اور خالہ کی فیملی کو ان کے ایک عزیز نے اپنے گھر انوائٹ کیا۔ میں شاہ میر اور شبانہ نے فیصلہ کیا کہ ہم گھر پر رہیں گے۔گھر والے سہہ پہر گھر سے نکل گئے۔۔ ہم تینوں ایک ڈیڑھ گھنٹا کیرم کھیلتے رہے۔ پھر شاہ میر اپنے کسی کام سے گھر سے نکل گیا۔۔اب میں اور شبانہ گھر میں اکیلے رہ گئے۔۔ کافی دیرتک ایک دوسرے کے ساتھ گپیں ہانکتے رہے۔۔اتنے میں شبانہ جھومنے سی لگی،اس کی صوفے پر بیٹھے بیٹھے آنکھ لگ گئی۔۔

خالہ کا گھر دو منزلہ تھا، اوپری منزل پر دو کمرے تھے جو کافی ہوا دار تھے۔ میں ٹہلتے ہوئے اوپر چلی گئی تو دیکھا کہ ایک کمرے کی کھڑکی کھلی ہوئی تھی جو باہر گلی کی طرف کھلتی تھی، میں نے کھڑکی بند کردی اورکمرے کا چکر لگا کر واپس دروازے کی طرف بڑھی تو اچانک کوئی چیز خوفناک پھڑپھڑاہٹ کے ساتھ میری گردن سے ٹکرائی ۔ میری چیخ ہی نکل گئی، میں نے دیکھا ایک کالا جنگلی کبوتر کمرے میں چکر لگا رہا تھا ، اس کے پروں کی آواز بہت ڈرا دینے والی تھی۔ میرے کچھ سمجھ نہیں آیا۔۔میں  تیزی سےدروازے کی طرف بھاگی اور دروازہ بند کردیا۔۔میرا دل دھک دھک کررہا تھا،میری کنپٹی پر کبوتر کے حملے سے خراش بھی آئی تھی۔ شاید کھڑکی کھلی رہ جانے کی وجہ سے وہ کبوتر کمرے کےاندر آگیا ہوگا۔ وہ اس وقت بھی کمرے میں بند تھا۔ اور اس کے پروں کی آواز آرہی تھی۔ میں جھٹ پٹ کنڈی لگا کر نیچے آگئی، اورپھولی ہوئی سانس کے ساتھ شبانہ کو اٹھا کرپورا ماجرا بتایا ۔ شبانہ کہنے لگی ،  باہر گلی میں کافی کبوتر اڑتے ہیں ہیں کوئی ان میں سے آگیا ہوگا ،اور تم اس کے اچانک حملے سے ڈر گئیں۔ چلو خیر ہے اوپر چل کر دروازہ کھول دیتے ہیں تاکہ وہ اڑ کر کمرے سے نکل جائے۔ہم دونوں دوبارہ اوپر پہنچے اور شبانہ نے کمرے کی کنڈی کھول کر دروازہ کھول دیا۔ ہم باہر کھڑے رہےتاہم کبوتر باہر نہیں آیا۔۔شبانہ نے اندر جھانکا تو وہاں کبوتر نظر نہیں آیا ، میں نے بھی اندر دیکھا مگر مجھے بھی نظر نہیں آیا۔کمرے کی کھڑکیاں بھی بند تھیں۔ ایک کھڑکی پر پردہ لٹکا ہوا تھا، شبانہ نے پردہ اٹھا کر ہلا جلا کر بھی دیکھا مگر کبوتر نہیں تھا۔ اب ہماری حیرت میں اضافہ ہورہا تھا۔اس کمرے میں ذیادہ سامان بھی نہ تھا، ایک پرانی رائٹنگ ٹیبل تھی اور ایک ایک چھوٹی الماری۔۔ مگران کے اندر باہر بھی کبوتر کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔اس وقت میری حیرت کی کوئی انتہا نہ تھی، آخر وہ کبوتر گیا تو کہاں گیا؟ کیا وہ واقعی کبوتر ہی تھا یا کوئی غیر مرئی مخلوق۔۔ آخر چند منٹ میں وہ پرندہ اس طرح بند کمرے سے کیسے غائب ہوسکتا تھا؟جبکہ باہر نکلنے کا کوئی راستہ بھی موجود نہ ہو۔۔

شبانہ مجھ سے حیران ہوکر واقعہ دوبارہ پوچھنے لگی کہ ہوا کیا تھا، واقعی کبوتر تھا یا تمہارا کوئی وہم  تھا ، میں نے کہا ارے کیا کہہ رہی ہو۔ میں نے اس کے پروں سے زخم کھایا ہے،اور جب وہ کمرے کا چکر لگا رہا تھا تو مجھے کچھ نہ سوجھا گھبراہٹ میں کمرے کا دروازہ بند کرکے کنڈی لگا کر نیچے چلی گئی۔ اب اس سے ذیادہ میرے لئے اس کا یہاں نہ ہونا حیرت کی بات ہے، وہ کبوتر گیا تو آخرکہاں گیا؟کون تھا وہ؟کیا وہ کوئی جن بھوت تھا؟میری اس بات پر شبانہ نے کہا چھوڑو دفع کرو۔ جہاں بھی جانا تھا چلاگیا۔

ہم دونوں باتیں کرتے ہوئے نیچے آگئے اور پھر اپنی فراغت کی تفریحات میں مشغول ہوگئے۔۔شبانہ تو شاید بھول ہی گئی تھی، لیکن میرے ذہن میں یہ ایک ہی سوال گردش کررہا تھا کہ وہ کبوتر آخر گیا کہاں۔۔

کراچی میں ہم نے خالہ کے گھر دو ہفتے گزارے ۔ پھر ہم واپس سکھر آگئے۔۔ آج اس واقعے کو پچیس برس گزر چکے ہیں۔ لیکن وہ واقعہ آج بھی میرے ذہن میں سوال بن کر ابھرتا ہے۔۔وہ کبوتر کمرے سے کہاں گیا۔۔کیا واقعی وہ کوئی مافوق الفطرت مخلوق تھی جو اس وقت کبوتر کی شکل میں وہاں موجود تھی۔ یا واقعی وہ کبوتر تھا ؟ مگر پھر وہ گیا کہاں ؟یہ معمہ شاید میں کبھی حل نہیں کرسکوں گی۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

::نوٹ::اس مضمون کے شہر اور کردار پرائیوسی کے نقطہ نظر سے بدل دیئے گئے ہیں۔اگر آپ بھی اپنا کوئی سچا واقعہ شیئر کرنا چاہیں تو اس ایڈریسssssss786@hotmail.com   پر میل  یا اس نمبر 03002500925   پر واٹس ایپ کرسکتے ہیں۔

کہدوپاک  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں