تحریر: اویس راحیل.
پاکستان کے تعلیمی نظام پر ہزاروں کالم لکھے جا چکے ہیں۔ کبھی نصاب پر تنقید ہوئی، کبھی اساتذہ کی تربیت پر، کبھی بجٹ پر بحث ہوئی، اور کبھی نجی و سرکاری تعلیم کے فرق پر۔ مگر میں آج ایک ایسے پہلو پر لکھنا چاہتا ہوں جسے شاید ہی کسی نے سنجیدگی سے دیکھا ہو—تعلیم اور تخیل کے درمیان جنگ!
ہمارے تعلیمی ادارے ایک ایسا ہنر سکھانے میں ناکام ہو رہے ہیں جو کسی نصاب کا حصہ نہیں، مگر زندگی کی سب سے بڑی طاقت ہے: سوچنے کی آزادی۔ ہم بچوں کو یاد کرنے پر مجبور کر رہے ہیں، مگر ان کے تخیل کو پروان نہیں چڑھا رہے۔ ہم انہیں بتا رہے ہیں کہ دنیا کو کیسے دیکھنا ہے، مگر یہ نہیں سکھا رہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے دنیا کو خود دیکھیں۔
کبھی آپ نے سوچا کہ ہمارے اسکولوں میں پڑھنے والے بچے بڑے ہو کر سائنسدان، مصنف، فلسفی، یا موجد کیوں نہیں بنتے؟ کیوں ہمارا تعلیمی نظام ڈاکٹر، انجینئر اور بیوروکریٹس تو پیدا کر رہا ہے، مگر خواب دیکھنے والے، دنیا کو بدلنے والے لوگ نہیں؟ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم بچوں کے تخیل کو دبانے کا ایک پورا نظام بنا چکے ہیں۔
پہلی جماعت سے ہی بچہ ایک مخصوص سانچے میں ڈھلنے لگتا ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ سوال کم اور جوابات زیادہ دینے ہیں۔ نصاب میں جو لکھا ہے، وہی سچ ہے۔ اگر استاد نے کہا کہ زمین گول ہے، تو بچہ کبھی نہیں سوچے گا کہ ”اگر یہ چپٹی ہوتی تو کیا ہوتا؟” اگر کتاب میں لکھا ہے کہ ایٹم سب سے چھوٹا ذرہ ہے، تو وہ اس پر سوال نہیں کرے گا، کیونکہ اسے سوال کرنے کی عادت ہی نہیں ڈالی گئی۔
کلاس میں بیٹھے بچے جن کے ذہن میں عجیب و غریب خیالات آتے ہیں، انہیں ”خیالی پلاؤ پکانے” سے منع کیا جاتا ہے۔ انہیں عملی بننے کی تلقین کی جاتی ہے، حالانکہ دنیا کے سب سے بڑے سائنسی اور فلسفیانہ انکشافات انہی خیالی پلاؤ پکانے والوں نے کیے۔ نیوٹن نے اگر درخت سے سیب گرتا دیکھ کر سوال نہ کیا ہوتا، تو شاید آج بھی کششِ ثقل پر یقین نہ ہوتا۔ آئن اسٹائن اگر روشنی کی رفتار کے بارے میں ”غیر حقیقی” سوالات نہ کرتا، تو نظریہ اضافیت کبھی نہ بنتا۔ مگر ہمارے اسکولوں میں اگر کوئی بچہ یہ کہے کہ ”میں وقت کو موڑنے والی مشین بنانا چاہتا ہوں”، تو اسے کہا جاتا ہے، ”بیٹا، پہلے میتھ کے نمبر تو اچھے لے آؤ!” یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں تحقیق کا رجحان کم ہے۔
ہمارے یونیورسٹی کے طالبعلم بھی صرف گریڈز کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ وہ علم حاصل نہیں کر رہے، بلکہ ملازمت کے لیے ڈگری لے رہے ہیں۔ جب وہ اپنی فیلڈ میں داخل ہوتے ہیں، تو انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس ڈگری تو ہے، مگر وہ دنیا کو بدلنے کے خواب نہیں دیکھ سکتے، کیونکہ انہیں خواب دیکھنے کی اجازت کبھی دی ہی نہیں گئی تھی۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام بچوں کو سوال کرنا نہیں سکھاتا۔ انہیں ایک ہی قسم کے جوابات رٹائے جاتے ہیں، انہیں اپنی سوچ کو آزمانے نہیں دیا جاتا، تخیل کی آزادی کو دبایا جا رہا ہے، اور یہی ہمارے زوال کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
تو حل کیا ہے؟ ہمیں ایک ایسا تعلیمی ماحول بنانا ہوگا جہاں بچے بے خوف ہو کر سوال کر سکیں، جہاں انہیں رٹے کی بجائے تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کے مواقع ملیں۔ اساتذہ کو صرف معلومات دینے والا نہیں، بلکہ سوچنے پر مجبور کرنے والا بننا ہوگا۔ ہمیں نصاب کو اس طرح ڈیزائن کرنا ہوگا کہ بچوں کو صرف حقائق نہ دیے جائیں، بلکہ ان حقائق پر سوال کرنے کی تربیت دی جائے۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دنیا کو چلانے والے لوگ وہ ہوتے ہیں جو سوچنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ جو نیا کچھ ایجاد کرتے ہیں، جو پرانے خیالات کو چیلنج کرتے ہیں، جو وہ سوالات کرتے ہیں جو باقی دنیا نے کبھی سوچے بھی نہیں۔ اگر ہم ایک ایسا تعلیمی نظام بنا لیں جہاں ہر بچہ سوال کرے، ہر بچہ خواب دیکھے، اور ہر بچہ تخلیق کرے، تو شاید پاکستان کی تقدیر بھی بدل جائے۔کیونکہ ایک ایسا تعلیمی نظام جو تخیل کو دبا دے، وہ صرف ذہنی غلام پیدا کر سکتا ہے، رہنما نہیں۔ اور ہمیں غلاموں کی نہیں رہنماؤں کی ضرورت ہے!۔