اس دن ایک عجیب واقعہ ہوا۔ جس نے بھی سنا حیران رہ گیا۔ سب پریشان کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے۔
واقعہ ہی کچھ ایسا تھا۔
منگھوپیر کے مگرمچھوں نے ہڑتال کردی۔
جی ہاں!مگرمچھوں کی ہڑتال
ہڑتال کا قصہ سنانے سے پہلے منگھوپیر اور اس کے مگرمچھوں کے تعارف کرادوں۔
میری طرح کراچی والے تو جانتے ہی ہیں، منگھوپیر شہر کی ایک مشہور درگاہ ہے اور پورا علاقہ اسی نام سے جانا جاتا ہے۔
درگاہ کے ساتھ ایک چشمہ ہے، جس میں لوگ نہاتے ہیں کہ ان کا عقیدہ ہے اس چشمے کا پانی شفاء دیتا ہے۔
اس چشمہ کا پانی ایک تالاب میں گرتا ہے۔
بس یہی تالاب ان مگرمچھوں کا مسکن ہے۔ تالاب کے ان مگرمچھوں نے ہڑتال کردی۔
اُس روز شہر میں عجیب ماحول تھا۔ دو روز پہلے شہر پر جیسے پانی سے بھرے بادل پھٹے تھے۔ گلی محلے، شاہراہیں گلیاں پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔
لوگ اذیت ناک صورتحال سے دوچار تھے۔ لیکن چونکہ انہیں اپنا غصہ نکالنے کے لیے سوشل میڈیا کا ذریعہ میسر تھا لٰہٰذہ انہیں ہڑتال کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
لیکن مگرمچھ کافی بحث و مباحثے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ان کے لیے ہڑتال ہی بہترین ذریعہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہڑتال کی وجہ اور اس کے طریقہ کار پر بعد میں آتے ہیں پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ مگرمچھ اس فیصلے پر پہنچے کیسے۔
سب سے پہلے کچھ سنجیدہ قسم کے مگرمچھوں نے آپس میں مشورے کئے جس کے بعد ہنگامی اجلاس بلایا گیا۔
اجلاس کی صدارت مور صاحب نے کی۔ مور صاحب سب سے بزرگ اور سمجھدار مگرمچھ ہیں۔ یہی تمام مگرمچھوں کے سربراہ ہیں۔
اجلاس شروع ہوا تو ایک نوجوان مگرمچھ نے اپنا سربلند کیا اور بولا:جناب!ایک گذارش ہے۔ اجازت ہو تو عرض کروں؟
بولو بولو نوجوان! جمہوریت میں سب کو بولنے کا حق ہے۔ اجازت لیکر بول سکتے ہیں۔ مور صاحب نے جواب دیا۔
نوجوان کی ہمت بندھی :جناب ! ہمارا یہ اجلاس تاریخی نوعیت کا ہے۔ کیوں نہ ہم اسے کوئی اچھا سا نام دیں تاکہ تاریخ میں اسی نام سے یاد کیا جائے۔ میرا مشورہ ہے اس تاریخی اجلاس کو منگھوپیر اجلاس کا نام دیا جائے۔
نوجوان ساتھی کی بات پر مگرمچھوں میں چہ میگوہیاں شروع ہوگئیں۔ شور بڑھنے لگا تو مور صاحب کی گرجدار آواز بلند ہوئی: خاموش! یہ کیا انسانوں کی طرح شور شرابا شروع کردیا۔ اجلاس کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ باری باری اپنی رائے کا اظہار کریں۔
ایک ادھیڑ عمر مگرمچھ نے سر اٹھاکر بولنے کی اجازت چاہی ، جو اسے مل گئی۔
وہ بولا: میرے پیارے مگرمچھ بھائیو! ہمارے نوجوان بھائی نے اچھی تجویز دی ہے۔ لیکن غور کریں۔ یہ نام انسانوں کی سیاسی جماعتوں کے اجلاس کے ناموں سے ملتا جلتا ہے۔ چونکہ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مگرمچھ ایک عظیم تاریخی کام کرنے جارہے ہیں۔ اس لیے اس کے نام میں بھی کریڈٹ مگرمچھوں کو ہی ملنا چاہیے۔
اجلاس کے شرکا کو یہ نقطہ پسند آیا۔۔۔ واہ واہ ہونے لگی۔ مور صاحب اسی ادھیڑ عمر مگرمچھ سے بولے کہ آپ ہی کوئی نام تجویز کریں۔
ادھیڑ عمر مگرمچھ بولے: میرے خیال میں اجلاس کا نام مگرمچھوں کی میٹنگ ہی ٹھیک رہے گا۔
مور صاحب کے چہرے پر اطمینان کے آثار ظاہر ہوئے، جیسے ان کے دل کی بات کہہ دی گئی ہو۔۔۔ انہوں نے باقی مگرمچھوں سے دریافت کیا: آپ سب متفق ہیں؟
تما مگرمچھوں نے ایک ساتھ کہا: متفق ہیں۔
سوائے پہلی تجویز دینے والے نوجوان مگرمچھ کے۔ یوں اس تاریخی اجلاس کا نام مگرمچھوں کی میٹنگ پڑگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کا وقت تھا۔تمام مگرمچھ تالاب کے کنارے جمع تھے۔آسمان پر چودھویں کا چاند پوری اب و تاب سے چمک رہا تھا۔
منگھوپیر کی پوری آبادی جیسے گہری نیند میں تھی۔
سڑک سے کافی دیر بعد گذرنے والے کسی ٹرک کی آواز اس پرسکون ماحول میں ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش کرتی لیکن ناکام رہتی۔
مگرمچھوں کے سامنے تھوری اونچی جگہ پر مور صاحب موجود تھے۔
ان کے ساتھ ایک او رمگرمچھ تھے جنہیں سیکرٹری کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
سیکرٹری مگرمچھ نے کارروائی کا آغاز کیا۔
اجلاس کا ایجنڈا دہرانے کے بعد انہوں نے بنا وقت ضایع کیے مور صاحب کو دعوت خطاب دی۔
مور صاحب آہستہ سے گویا ہوئے: میرے بچو! تم سب جانتے ہو ہم صدیوں سے منگھوپیر کی اس نگری میں رہ رہے ہیں۔ یہاں ہمیں انسانوں سے بہت پیار ملا۔ دیگر جانوروں کی طرح مرنے کے بعد ہمارے مردہ جسم گلنے سڑنے کے لیے نہیں چھوڑدئے جاتے۔ بلکہ بڑے احترام کے ساتھ تالاب کے قریب ہی ہماری تدفین کردی جاتی ہے۔ اس سرزمین پر ہمارے آباو اجداد دفن ہیں۔
مور صاحب نے تھوڑا توقف کیا اور پھر بولے: میرے بچو! ایک وقت تھا یہان امن محبت رواداری کی ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں۔ خوشی کا اظہار کرنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ چاہے کوئی رقص کرے یا دھمال ڈالے۔ کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ ہرسال یہاں چھوٹا سا افریقا آباد ہوجاتا تھا۔
بزرگ مگرمچھ کی اس بات پر تمام مگرمچھوں نے ایک سرد آہ بھری۔ ان کی آنکھوں میں جیسے ماضی کا منظر گھوم گیا۔
مور صاحب پھر مخاطب ہوئے۔ : کراچی،حیدرآباد اور لسبیلہ میں رہنے والی شیدی برادری کی چاروں جماعتیں کھارادر مکان، حیدرآبادی مکان، لاسی مکان اور بیلارا مکان والے اپنا شیدی میلہ لگانے کے لیے درگاہ منگھوپیر کے پاس اپنی بستی آباد کرتے۔ ہماری بھی خوب خدمت ہوتی۔ ہر جماعت کے لیے شیدی دھمال کا ایک دن مقرر ہوتا تھا۔ دھمال والے دن صبح سویرے شیدی عورتیں خاص طور پر حلوہ تیار کرتیں۔ شیدیوں کے مخصوص ساز مگرمان کو تیار کیا جاتا۔۔۔ اسے پورے احترام کے ساتھ روایتی طور پر لوبان سے دھونی دی جاتی۔ بکرا ذبحہ کیا جاتا۔
مور صاحب نے مگرمچھوں کے مجمعے پر ایک نظر ڈالتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔ : مگرمان بجانا شروع کیا جاتا تو اس کے ردھم پر آہستہ آہستہ دھمال شروع ہوجاتی۔ خواتی، بچے اور مرد سب وجد کی کیفیت میں اس میں شامل ہوتے جاتے۔ روایت کے مطابق ہاتھوں میں ڈنڈے تھامے، بالوں میں نازبو کے پتے لگائے دھمال کرنے والے ایک قطار میں آہستہ آہستہ منگھوپیر کی درگاہ کی طرف بڑھتے رہتے۔
مور صاحب بیان کر رہے تھے اور سارے مگرمچھ انہیں سن رہے تھے۔
مور صاحب بولے: میرے بچو! یہ قافلہ درگاہ پر پہنچ کر حاضری دیتا۔ اس کے بعد دھمال کرنے والی جماعت یا مکان کے معززین مگرمچھوں کے سربراہ مور صاحب کو بکرے کی سری پیش کرتے۔ اور اس ماتھے پر قدیم روایت کے مطابق سندور لگاکر رسم پوری کرتے۔ یوں علی الصبح شروع ہونے والی دھمال کی رسم سورج غروب ہونے پر ختم ہوتی۔
مور صاحب نے بات مکمل کی تو مگرمچھوں کی میٹنگ میں موجود ایک بچہ مگرمچھ نے سوال کیا : پھر کیا ہوا؟ اب شیدی میلہ کیوں نہیں ہوتا؟
میرے بچے! پھر اس شہر سے امن و محبت اور رواداری کی ہوائیں روٹھ گئیں۔ ان کی جگہ نفرت کی آندھیوں نے لے لی۔ محبت کی گیتوں کی جگہ گولیوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔ امن، محبت اور رواداری کی علامتیں مٹائی جانے لگیں تو شیدی میلہ بھی بند ہوگیا۔
مور صاحب نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
میرے بچو! شیدی میلہ نہ ہونے کے علاوہ ہمیں ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے۔ یہاں سے کافی دور جہاں پہاڑ اور سمندر آپس میں ملتے ہیں وہاں سے ایک جانور ہماری بستی میں آیا ہے۔ اس کے ذہن میں صرف نفرت اور غصہ بھرا ہوا ہے۔ بعض انسانوں کی طرح یہ بھی اپنی انا کا غلام ہے۔
مور صاحب نے ایک اور مسئلے کی نشاندہی کی۔ : میرے بچو! اس جانور نے اپنی برادری میں بھی امن و اتحاد رہنے نہیں دیا۔ اب وہ ہماری اس بستی کے ماحول کو بھی بگاڑ کر رکھ دے گا۔
اس پر ایک نوجوان مگرمچھ جذبات سے بولا:ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔ کچھ تو کریں۔ ایک احتجاج ہی سہی۔
میرے بچے ! ہم اسی لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ میران خیال ہے ہمیں اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا چاہیے۔ ہمیں بھی انسانوں کی طرح ہڑتال کرنا چاہیے۔ مگرمچھوں کی ہڑتال۔
اس پر ایک معصوم سا مگرمچھ بچہ بولا: انسان تو ہڑتال میں دکانیں بند کرتے ہیں۔ ہم یہ کیسے کریں گے؟
مور صاحب مسکراہے اور بولے: میرے پیارے بچے! ہم اپنے انداز میں ہڑتال کریں گے۔
دوسرے روز مگرمچھوں کو دیکھنے کے لیے تالاب پر آنے والے شہریوں کو ایک بھی مگر مچھ نظر نہیں آیا۔
نہ کنارے پر اور نہ ہی پانی کی سطح پر
۔۔۔۔۔۔۔۔