ویلنٹائن اور بسنت

تحریر: خالدہ ظفر.

پاکستانی قوم الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے توسط سے فروری کے مہینے میں جشن بہاراں اور ویلنٹائن ڈے جس گرم جوشی سے منانے کا اہتمام کرتی ہے اس سے نہ صرف قوم بالخصوص نوجوان نسل کی بھارتی و مغربی ثقافت سے مرعوبیت اور اپنی ثقافت سے اظہار لا تعلقی کلی طور پر سامنے آ جاتے ہیں، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ انگریز اور ہندوؤں کی غلامی سے نجات کا جو سفر 77 برس قبل آزادی کی صورت پایہ تکمیل کو پہنچا تھا، وہ ہنوز تشنہ طلب ہے ۔

آزادی کے حصول کو سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود بھی ذہنی غلامی و پسپائی کا زہر موجود ہے اور ہمارے پورے قومی وجود و تاریخ کو آلودہ کر رہا ہے۔بسنت اور ویلنٹائن ڈے کو تفریح کا نام دے کر فروغ دینے والے اور اس کا دفاع کرنے والے روشن خیال عناصر قوم کے اجتماعی حافظے سے وہ تاریخی پس منظر بھی محو کر چکے ہیں جو ان ایام و تہوار کے آغاز کا سبب بنا تھا۔

بسنت نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کے مرتکب ہندو مصنف “حقیقت رائے “کی یاد میں منایا جانے والا وہ تہوار ہے جو خالصتاً ہندوؤں کی مذہبی رسومات پر مشتمل ہے اور اس مذہبی رسم کا تفریح سے دور کا بھی تعلق نہیں۔مگر اسی بسنت کو ہمارے روشن خیال و ماڈریٹ طبقے نے محض تفریح و انجوائے منٹ کا نام دے کر ہماری قومی ثقافت کے ساتھ جو ستم ڈھائے ہیں وہ کسی بھی طرح قابل معافی نہیں۔

اسی طرح ویلنٹائن ڈے کے نام پر مچائی جانے والی بےہودگی اور فحاشی بھی کسی طرح ہمارے مذہب ،تاریخ اور ثقافت سے قطعاً منسلک نہیں۔مزید یہ کہ باوقار و شائستہ روایات کی حامل قوم کو ایسے ایام کی ترویج و فروغ کسی بھی طور پر زیب نہیں دیتا۔ملک کو درپیش لا تعداد اندرونی و بیرونی مسائل و خدشات کے تناظر میں ان تہواروں کی حکومتی سطح پر سرپرستی و حوصلہ افزائی بھی قابل شرم ہے۔

بسنت کی بھینٹ چڑھ جانے والی قیمتی جانوں کا زیاں ایک الگ المیہ ہے۔ہمیں من حیث القوم اس امر کا ادراک کرنا ہوگا کہ ہماری قومی ثقافت و تاریخ خود شاندار روایتوں سے مالا مال ہے۔ہمیں کسی بھی طرح اغیار سے مرعوبیت اور اپنی ثقافت پر احساسِ کمتری کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں۔ہمارے لئے اپنے تہوار ہیں جن کو منانے اور اپنانے پر ہمیں فخر ہونا چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں