گیارہویں عالمی اردو کانفرنس (پہلی قسط)

پاکستان آرٹس کونسل کراچی میں چار روزہ گیارہویں عالمی اردو کانفرنس پوری رعنائیوں کیساتھ جاری رہنے کے بعد اختتام پذیر ہوگئی،، کانفرنس میں اردو زبان سے محبت کرنے والوں کے لیے بہت کچھ تھا۔اردو کانفرنس علم وادب سے محبت کرنے والوں کا چار روز تک گہوارہ بنی رہی،، کانفرنس کے روح رواں تھے کراچی آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ،، کانفرنس میں دنیا کے کئی ممالک سے فلسفی، محققین،ادیب، شاعروں اور فنکاروں نے کانفرنس میں شرکت کر کے علم وادب کی اس محفل کو چار چاند لگائے۔
کانفرنس میں شرکت کرنے والوں میں شمیم حنفی،افتخارعارف، ممتاز براڈ کاسٹر رضا علی عابدی، عارف نقوی، چینی ادیب و شاعر ٹینگ مینگ شنگ،جاذب قریشی، افضال احمد سید،فلسفی و محققین میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، پروفیسراجمل خان، ڈاکٹرانوار احمد،قاسم بگھیو، پروفیسر ہارون رشید،منیر بادینی،سید مظہر جمیل، صادقہ صلاح الدین، امینہ سید، غازی صلاح الدین، پروفیسر اعجاز احمد، پروفیسر سحرانصاری، ڈاکٹر سید جعفراحم،ڈاکٹر فاطمہ حسن،مسلم شمیم،سید نعمان الحق، امداد حسینی، گل حسن کلتمی، احمد فواد، سلیم مغل، ابنِ آس، فرزانہ روحی اسلم اور امینہ سید،مبین مرزا، اداکار طلعت حسین، نور ظہیر،عظمیٰ سلیم شامل تھیں۔
شاعروں میں جن افراد نے شرکت کی ان میں یشب تمنا(برطانیہ)، فاروق ساغر(برطانیہ)، وفا یزدان منش (ایران)، باسط جلیلی(برطانیہ)، ثمن شاہ (پیرس)، تہمینہ راﺅ(سڈنی)، غزل انصاری(برطانیہ)، انور مسعود، پیرزادہ قاسم، انور شعور، عارف نقوی، صابر ظفر، ایوب خاور، یاسمین حمید، فاطمہ حسن، باصر کاظمی، لیاقت علی عاصم، عباس تابش، احمد سلمان، احمد نوید، فاضل جمیلی،تسنیم حسن، احمد عطاءاللہ، ناصرہ زبیری، شہزاد شرجیل، ہما طاہر، ضیاءالحسن، ریحانہ روحی، فراست رضوی، گہراعظمی،اعجاز رحمانی اور دیگر شامل ہیں۔۔ افسانہ نگاروں میں اسد محمد خاں، مستنصر حسین تارڑ، مسعود اشعر، عامرحسین، مرزا حامد بیگ، اسلم جمشید پوری، محمد حمید شاہد، ڈاکٹر آصف فرخی، خالد محمود سنجرانی، اخلاق احمد، زیب اذکار حسین اور دینیل جوزف شامل تھے۔
تھیٹر کی معروف ادکارہ نادرہ ظہیر ببر، حسینہ معین، نورالہدیٰ شاہ، ایوب خاور، اقبال لطیف، زین احمد اور ساجد حسن نے شرکت کی۔گیارہویں اردو کانفرنس میں اردو کی ترویج کیساتھ معلوماتی، ادبی سیشن بھی ہوئے اور طنزو مزاح کا دور بھی رہا جبکہ موسیقی اور رقص کی محفل نے لوگوں کے دل موہ لیے۔
علم وادب سے پیار کرنے کرنے والوں نے کانفرنس سے بھر پور استفادہ بھی کیا۔ جون ایلیا پر خصوصی سیشن ہوا جس میں جون کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔ بچوں کے ادب کے حوالے سے بھی کانفرنس میں ایک خصوصی نشست ہوئی جس میں بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے والے مختلف ادیبوں نے بھی شرکت کی۔
عالمی اردو کانفرنس میں پاکستان، بھارت متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک کے مندوبین کی بڑی تعداد نے شرکت کی، جبکہ کانفرنس میں اردو شاعری، ادب، تھیٹر، فلم، ڈرامہ، رقص پر نشستیں بھی ہوئیں۔ مشاعرے میں ملک کے نامور شعراء نے اپنا کلام سنا کر شرکاء سے خوب داد سمیٹی۔ کانفرنس میں اردو سائبراسپیس سے متعلق کانفرنس میں سیرحاصل گفتگو کی گئی اس کے علاوہ کانفرنس میں تعلیم کی اہمیت سمیت کئی ادیبوں اور شاعروں کی زندگی پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ چار روزہ اردو کانفرنس میں معیاری تعلیم سب کے لئے، تراجم اور دنیا سے رابطہ اور یادگار رفتگاں سمیت دیگر موضوعات کو بھی زیربحث لایا گیا۔ پاکستانی فلم، ماضی حال مستقبل کے موضوع پر مقبول ترین اداکارہ مصطفی قریشی، منور سعید، ہمایوں سعید، سلطانہ صدیقی، سنگیتا، ندیم بیگ اور امریکا سے آئی ہوئیں گوئن کرک نے گفتگو کی۔
صحافت: معاشرے کی عکاس۔ ایک سوال” پر اظہرعباس، ضرار کھوڑو، اویس توحید، منیزے جہانگیر، مبشر اور دیگر نے اظہارِ خیال کیا۔
ٹینا ثانی نے فیض احمد فیض کا کلام پیش کرکے خوب داد وصول کی۔
گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے اختتام پر حاضرین نے اُردو کا ترقی و ترویج کے لئے متعددقراردادیں منظور کیں، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے قراردادیں پڑھ کر سنائیں جو دُنیا بھر سے آئے ہوئے دانشوروں اور حاضرین نے ہاتھ کھڑے کرکے منظور کیں جوکہ مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ امن انسانی معاشرے کی ناگزیر ضرورت ہے اور آج دُنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، ہم اہلِ قلم یقین رکھتے ہیں کہ جنگیں ،دہشت گردی اور اسلحے کی دوڑ، یہ سب انسانی سماج کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ سو ہم قیامِ امن کی بات کرتے اور اس کے حق میں آواز بلندکرتے ہیں۔
2۔ جنوبی ایشیا کے بین الملکی مسائل کو بات چیت اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے کے سوااور کو ئی صورت ممکن نہیں ہے۔اس لئے بات چیت کے عمل کوفوری اور موثر سطح پر شروع کیا جائے
3۔ ہم اپنے پڑوسی ممالک کے ادیبوں، شاعروں ، دانشوروں اور فنکاروں سے روابط کے فروغ پر اصرار کرتے ہیں ۔ ان روابط کو مضبوط بنانے کے لئے مختلف ملکوں کے درمیان آمدورفت کے مسائل حل کئے جائیں اور ویزا کے حصول کو آسان بنایا جائے۔
4۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ذرا ئع ابلاغ خصوصاً الیکٹرانک میڈیا زبان کی درستی اور تہذیبی اقدار کا خیال رکھتے ہوئے ذمہ دارانہ کردار ادا کرے۔مزید یہ کہ خصوصاً جنوبی ایشیا کا الیکٹرانک میڈیا خطے میں امن اور عوام کی خوشحالی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرے۔
5۔ نوجوانوں کو اپنی تہذ یبی اور ثقا فتی اقدار اور مظاہر سے روشناس کرا نے کے لیے حکو متی سطح پر خصوصی اقدا مات کئے جائیں تا کہ نئی نسل کے دلوں میں ثقا فتی ورثے کا افتخار اور یقین جگہ پا سکے۔
6۔ ملک میں ہم آہنگی کے فروغ کے لئے اُردو اور دوسری قو می زبانوں کے ادیبوں، شاعروں کا میل جول بڑھایا جائے، صوبوں کے مابین ادیبوں اور فن کاروں کے وفود کے دورے کرائے جا ئیں اور ان سب زبانوں میں ادب، فلسفہ، فنون ، اقتصادیات اور سائنس سمیت دوسرے شعبوں کی کتا بوں کے تراجم کا اہتمام کرا یا جائے۔علاوہ ازیں پرائمری تک مادری زبان میں تعلیم کے لئے اقدامات کئے جائیں۔
7۔غیر ملکی زبانوں میں اُردو ادب کے تراجم کے سلسلے میں تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں تاکہ ہمارے ادب اور ادیبوں کو عالمی سطح پر شناخت کے مؤثر مواقع فراہم ہوں۔
8۔ اُردو کوسرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کا فیصلہ تو سپریم کورٹ نے کیا ہے اوروزیر اعظم نے بھی اس کا اعلان کیا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کا ماحول اب تک نہیں بن سکا۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس فیصلے پر عملدرآمد کے لئے ضروری اور سنجیدہ اقدامات کئے جائیں۔
(جاری ہے)

(کامران مغل)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں