پارلیمنٹرینز کی تنخواہوں میں 140فیصد اضافہ

تحریر: امتیاز علی شاکر.

پارلیمنٹرینز کی تنخواہوں میں 140فیصد اور مراعات میں اضافہ، اسپیکر قومی اسمبلی ،ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے ایم این اے اور سینیٹر کی ماہانہ تنخواہ2 لاکھ 18 ہزار روپے سے بڑھاکر 5 لاکھ 19 ہزار روپے کرنے کی متفقہ منظوری دیدی ہے،باخبر ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے 67 اراکین نے تنخواہوں میں اضافے کا تحریری مطالبہ کیا تھاجبکہ تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے معاملے پرپاکستان پیپلز پارٹی،پاکستان مسلم لیگ ن سمیت دیگر جماعتیں بھی یک زبان ہیں۔

تمام کٹوتیوں کے بعد وفاقی سیکرٹری کی تنخواہ اور الائونسز 5 لاکھ 19 ہزار ماہانہ ہیں،حالیہ منظوری کے مطابق اراکین پارلیمنٹ کوتنخواہ،مراعات اور دیگرسہولیات بھی وفاقی سیکرٹری کے مساوی حاصل ہونگی،خبرہے کہ اراکین پارلیمنٹ نے تنخواہ 10 لاکھ روپے ماہانہ کا مطالبہ کیا تھا جسے اسپیکر قومی اسمبلی نے مسترد کر کے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں میں 140فیصد اضافے کی سفارشات وزیر اعظم کو بھجوا دیں ہیں ، وزیر اعظم کی منظوری کے بعد تنخواہوں میں اضافے کامعاملہ دونوںایوانوں کی متعلقہ قائمہ کمیٹیوں میں بھیجا جائیگاجویقینا منظورکرلیاجائے گا۔

واضح رہے کہ دسمبر 2024ء میں پنجاب اسمبلی میں عوام کے منتخب نمائندوں نے اپنی تنخواہوں پر نظر ثانی بل 2024ء منظوکیاتھاجس کے بعد ایم پی اے کی تنخواہ 76 ہزار سے 4 لاکھ روپے اور وزیر کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر 9 لاکھ 60 ہزار کر دی گئی تھی،اسی طرح ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی تنخواہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے سے بڑھا کر 7 لاکھ 75 ہزار روپے کردی گئی تھی، پارلیمانی سیکریٹری کی تنخواہ 83 ہزار روپے سے بڑھا کر 4 لاکھ 51 ہزار جبکہ وزیر اعلیٰ کے مشیر کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر 6 لاکھ 65 ہزار روپے کردی گئی تھی،وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی کی تنخواہ بھی ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر 6 لاکھ 65ہزار روپے کی گئی تھی۔

مہنگائی اورحکمران طبقے کی شاہانہ زندگی کودیکھاجائے تو ایم این اے اور سینیٹر کی ماہانہ تنخواہ2 لاکھ 18 ہزار روپے اور ایم پی اے کی تنخواہ 76 ہزارنہ ہونے کے برابرتھی،ایم این اے اور سینیٹرکی تنخواہ5 لاکھ 19 ہزار اورایم پی اے کی تنخواہ 4 لاکھ کرناعام عوام کی نظرمیں توبہت بڑااضافہ ہے جبکہ شاندارمحلات ،بڑی بڑی گاڑیوں،آگے پیچھے ملازمن کی قطاریں اورڈیرہ داری نظام کے اخراجات دیکھیں تو5یا4لاکھ روپے کی کوئی حیثیت نہیں۔

صرف ایک سیدھے اورسادہ سوال کے بعد آگے بات کرتے ہیں،میرے اورآپ کے پسندیدہ سیاستدان ذاتی مراعات اورتنخواہوں کے معاملے پریک زبان ہوسکتے ہیں توعوامی مسائل کے حل اورملک کومعاشی مشکلات سے نکالنے کیلئے اکھٹے کیوں نہیں ہوسکتے؟

مہنگائی کی چکی میں پسے مقروض ملک کے بے روزگار،تنخواہ داراورمزدورعوام کے منتخب نمائندوں کو تنخواہ 5اور4لاکھ روپے اوردیگرمراعات حاصل ہوسکتی ہیں توسوچیں خوشحال اورترقی کرتے ملک کے عوام اپنے حکمرانوں کومزیدکیاکچھ دے سکتے ہیں؟موجودہ حالات میں توغریب عوام پر امیرحکمرانوں کے اخراجات بہت بڑا بوجھ معلوم ہوتے ہیں، طبقاتی تقسیم اور معاشی ناہمواری سنگین مسئلہ ہے، جس کا سب سے زیادہ اثر غریب عوام پر پڑتا ہے،معاشرے میں امیر طبقہ اپنے پرتعیش،شاہانہ طرززندگی،غیر ضروری اخراجات اور وسائل کے غلط استعمال سے نہ صرف خود فائدہ اٹھاتا ہے بلکہ امیروں کے اخراجات کا بوجھ غریب طبقے کے وسائل اور امکانات کو مزید محدود کر دیتا ہے،امیروں کے اخراجات کا بوجھ کیسے غریب عوام پر پڑتا ہے؟

امیروں کی عیش و عشرت اور کاروباری مفادات کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت نے ٹیکسوں کے نظام کو غریب عوام پر نافذ کردیاگیاہے، اشیاء کی قیمتوں ،بجلی اورگیس پر لگنے والے ٹیکسز کازیادہ تر اثر غریب طبقے پر پڑتا ہے جو اپنی معمولی آمدنی سے بنیادی ضروریات زندگی پوری کرتے ہیں،بااختیارطبقہ اور بڑی کمپنیاں قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے کم ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ غریب عوام پر اضافی ٹیکس کا بوجھ ڈال دیاگیاہے۔

وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے نتیجے میں امیروں کے پرتعیش طرزِ زندگی کے لیے زیادہ وسائل مختص کیے جاتے ہیں جبکہ غریب عوام غذا، تعلیم،صحت،رہائش اورروزگار جیسی بنیادی ضروریات سے محروم رہتے ہیں،مراعات یافتہ طبقہ ایسا سماجی،معاشی گروہ بن چکاہے جو عام عوام کی نسبت بہتر وسائل، اختیارات اور مراعات کا حامل ہے یہ طبقہ معاشرے میں مختلف عوامل کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے، جن میں دولت،طاقت، تعلیم،سیاسی رسوخ،اور خاندانی حیثیت شامل ہیں،مراعات یافتہ طبقہ مواقع اور وسائل تک رسائی رکھتا ہے جو دوسرے افراد یا طبقات کے لیے محدود یا ناقابل رسائی ہوتے ہیںاوراکثرقانون سازی اور حکومتی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتاہے تاکہ اپنے مفادات کا تحفظ کرسکے۔

اعلیٰ معیار کے تعلیمی اداروں تک رسائی مراعات یافتہ طبقے کی پہچان ہے جہاں ان کیلئے بڑے عہدوں،بڑے کاروباراوربہتر ملازمتوں کے مواقع کی راہ ہموارہوتی ہے ،مراعات یافتہ طبقہ نہ صرف اپنے لیے وسائل اورمراعات کے مواقع پیدا کرتا ہے بلکہ دیگر طبقات کی ترقی میں رکاوٹ بھی بنتاہے،وسائل پر قابض ہوکر عدم مساوات کو فروغ دیتا ہے،انصاف کے نظام کو کمزور کرتا ہے،عام افراد کی ترقی کے مواقع محدود کرتا ہے۔

یہاں تک کہ مراعات یافتہ حکمران طبقہ عام عوام کوتعلیم اورصحت کی بہترسہولیات سے اس لئے بھی محروم رکھتاہے کہ غریب لوگ تعلیم ،شعوراوراچھی صحت کے حامل ہوگئے تواُن سے سوال کرسکتے ہیں،اپنے حقوق کیلئے جدوجہدکرنے کے قابل ہوسکتے ہیںیہ سمجھنے کے قابل ہوسکتے ہیں کہ ملکی ترقی کے نام پر لیے گئے قرضے اکثر امیروں کی عیاشیوں پر خرچ ہوتے ہیں جبکہ ان قرضوں کی واپسی کے لیے عوام پر مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔

امیر طبقہ اکثر حکومتی منصوبوں میں بدعنوانی کرتا ہے جس سے ترقیاتی منصوبے ناکام ہو جاتے ہیں جن کا نقصان عوام کواٹھانا پڑتا ہے، بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لیے گئے قرضوں کی واپسی کے لیے مہنگائی اور عوامی سہولیات میں کٹوتی کی جاتی ہے جس سے غریب طبقہ مزید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے، امیر طبقہ مہنگے نجی تعلیمی اور صحت کے اداروں سے فائدہ اٹھاتا ہے، جبکہ سرکاری ادارے فنڈز کی کمی کی وجہ سے غریب عوام کی ضروریات پوری کرنے میں ناکام رہتے ہیں، امیر طبقے کے لیے مہنگے اور معیاری تعلیمی ادارے دستیاب ہیں، جبکہ غریب طبقہ ناقص تعلیمی نظام میں پھنسا رہتا ہے، جس سے وہ ترقی کے مواقع سے محروم رہتا ہے۔ امیر طبقے کی بڑھتی ہوئی طلب اور عیش و عشرت کی زندگی مہنگائی کو بڑھاتی ہے، جو غریب عوام کی قوت خرید کو متاثر کرتی ہے،امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا ہے جس سے معاشرے میں احساس محرومی اور نفرت جنم لیتی ہے، وسائل کی غیر مساوی تقسیم اور امیروں کے اخراجات کا بوجھ غریب عوام کو غربت کے دائرے سے نکلنے نہیں دیتا۔

جس دن کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی گزارنے والے عوام یہ سمجھ گئے کہ حکمران اُن کاجسم نوچ کراپنی نسلوں کیلئے عیاشیوں کاانتظام کرتے ہیں،غریب کوجان بوجھ کربنیادی ضروریات زندگی سے محروم رکھتے ہیں اُس دن یہ کیڑے مکوڑے مراعات یافتہ طبقے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل ہوجائیں گے اوریہی حکمران طبقہ نہیں چاہتا۔ملک وقوم کے تمام معاملات میں اختلاف رکھنے اورہروقت لڑنے جھگڑے والے ذاتی مراعات اورتنخواہوں کے معاملے پرکیسے یک زبان ہوجاتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں