تحریر: حریم شفیق.
ہاتھ میں تسبیح۔۔۔ سفید دوپٹہ اور نورانی سا چہرہ۔۔۔۔ نماز روزے کی پابند ۔۔۔۔ عبادت گزار ۔۔۔مگر بہو کے ساتھغیر منصفانہ رویہ جو ماں اولاد کے لیے جان قربان کر دینے کو تیار ہوتی ہے جو محبت سے اس کا گھر بساتی ہے وہ اس کا گھر برباد کرتی دکھاتے ہیں سازشوں میں مصروف دکھاتے ہیں۔۔۔اور تو اور بیٹے کی اولاد نہ ہو تواسےمکروہ عمل میں مصروف دکھاتے ہیں ماں کے خوبصورت اور معصوم چہرے کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے کہ آنے والی لڑکی شروع سے ہی ایسا ذہن لے کر آتی ہے۔؟
سخت مزاج اور ضدی خاتون تقریباً ہر ڈرامے میں ماں کا کردار بہروپیے جیسا ؟جو لالچی اور مفاد پرست ہے۔۔۔جسے بیٹی کا گھر بسانے کی کوئی فکر نہیں بلکہ وہ ایسا چاہتی ہی نہیں کیونکہ اس کے گھر کا چولہا نہ بند ہو جائے یا پھر دولت مند داماد ڈھونڈتی ہے کہ جو اس کہ گھر کا نہ صرف خرچ اٹھائے بلکہ وہ عیش کی زندگی گزارے ؟؟عزت نفس کی گویا دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں۔
اسی طرح پہلے بھی کئی ڈرامے بنائے گئے جیسے ایک ڈرامے میں سسر مسجد کا نمازی پرہیزگار لیکن انتہائی کرخت،سخت مزاج اور ڈکٹیٹر ؟؟ جو ان اصولوں پہ سختی سے کار بند ہے جو اسلام نے حدود مقرر کی ہیں اور جو بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے ہیں مگر انھیں ایک بوجھ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
کیا ہمارے رائٹرز اور پروڈیوسرز کسی اسلام مخالف کنٹریکٹ پہ کام کر رہے ہیں؟؟جن کے ڈراموں میں پاکستانی معاشرے کا یہ تاثر دکھایا جاتا ہے کہ جو جتنا مذہبی ہے وہ اتنا ہی ظالم اور بد اخلاق ہے ؟ کبھی پڑوسی ملک کے ڈرامے دیکھے ہیں ؟ جن میں وہ اپنے مذہب کا کتنا پرچار کرتے ہیں ان کے مذہب سے متعلق لوگ کتنے اچھے دکھائے جاتے ہیں، لیکن کیا ہمارا ہی عقیدہ اتنا کمزور ہے کہ اپنے مذہب کو اس پہ چلنے والوں کو برا دکھاتے ہیں؟ وہ رشتے جو عزت و تکریم کا نشان ہیں ان کو بدصورت کر کے دکھایا جاتا ہے۔۔۔ماں لالچی،باپ ڈکٹیٹر، بھائی حاسد،بہن سازشی ، بیٹی ضدی، اکھڑ بیباک، بیٹا نا فرمان ۔۔۔ کون سا رشتہ ہے جسے اس کی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا جاتا ہو۔
افسوس کا مقام ہے آج لکھاری افراد کے سر پہ بس پیسہ کمانے کی دھن سوار ہے اس کے لیے چاھے انھیں اپنا ایمان ہی کیوں نہ بیچنا پڑے۔۔۔ انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں کہ ان کے قلم سے نکلے الفاظ معاشرے میں کیا زہر گھول رہے ہیں رشتوں کا تقدس پامال ہو رہا ہے۔والدین پہ اعتبار نہ رہا۔۔ان کا احترام ختم ہو رہا ہے۔۔۔۔ جو ماں پیار سے بیٹے کے سر پہ سہرا سجا کے بہو لاتی ہے وہ بہو پہلے سے ہی ساس کو جلاد سمجھ کے آتی ہے اور گویا شوہر کے گھر نہیں کسی اکھاڑے میں اترتی ہے جہاں اس کا مقابلہ ساس اور نندوں سے ہوتا ہے ۔۔۔اور جو گھر پیار محبت ایثار سے بنائے جا سکتے ہیں وہ الیکٹرانک میڈیا کی لگائی آگ کا شکار ہو کر جل جاتے ہیں۔کتنے ہی گھر برباد ہو جاتے ہیں ماں باپ کو اولڈ ہاؤسز چھوڑ آتے ہیں جہاں وہ اپنوں کی جدائی میں رو رو کے اگلے جہان چلے جاتے ہیں۔
کیا ان لکھاریوں کو اندازہ ہے کہ وہ کتنے ہی لوگوں ،خاندانوں کی بد دعائیں سمیٹتے ہیں؟؟کیا انھیں آخرت کا کوئی خوف نہیں؟کیا انھیں جوابدہی سے ڈر نہیں لگتا؟؟؟خدارا اپنے مذہب کا روشن تصور پیش کیجیے اسلام ہماری پہچان ہے ہماری اقدار ہمارا غرور ہیں انھیں بد نما بنا کر پیش نہ کریں رشتوں کے تقدس کو پامال نہ کریں۔اپنے قلم سے اپنے اقدار کی حفاظت کریں یہ ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہونا چاھیے کہیں ہمارے گھر اس طوفان کی لپیٹ میں نہ آ جائیں۔