تحریر:گل بخشالوی.
انسان کے وجود میں ایک دل ہے جس کی ہر خواہش پر انسان اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو جاتا ہے لیکن دل بڑا بے وفا ہے جب چاہے دھڑکنا بند کر کے اچھے بھلے انسان کو دنیا بدر کر دیتا ہے ، جب مجھے کہا گیا کہ تم اپنے دل کو پہلے فر صت میں خو بصورت جیون کے لئے اسٹینٹ پہنا دو تو میرا دل دھڑکنے لگا تھا ہوا یہ تھا کہ میرے سینے میں درد اٹھا اور درد اس قدر شدید تھا کہ میرے اپنے پریشان ہو گئے اور مجھے فوری طور پر قریبی پرائیویٹ ہسپتا ل لے گئے، ہسپتال میں امراض دل کے ڈاکٹر میرے پیارے دوست ہیں، مجھے بستر پر لٹا دیا گیا، دو تین نرسیں میرے گرد ہوگئیں، بلڈ پریشر چیک کیا گیا، لیبارٹری ٹیسٹ کے لئے خون لیا گیا ڈرپ لگائی گئی، ای سی جی مشین قریب لائی گئی، مطلب ہے دل کے مریض کے ساتھ جو کیا جاتا ہے وہ سب کچھ میرے ساتھ ہونے لگا ،کوئی چار گھنٹے زیر علاج رہا، درد کو آرام آیا تو ڈاکٹر صاحب کہنے لگے مجھے شک پڑتا ہے معاملہ آپ کے دل کا ہے اس لئے بہتر ہے امراض قلب کے فلاں ڈاکٹر سے بھی مشورہ کر لیں، ڈاکٹر صاحب صاحب کی فیس اور تھیلے بھر کی ادویات کے ادائیگی کر کے گھر چلا آیا۔
درد کو آرام آیا لیکن دماغ بے آرام ہو گیا دوسرے دن گھر کے سامنے جی ٹی روڈ پر فلاں ڈاکٹر کے ہسپتال گیا وہ بھی امراض قلب کا مشہور ڈاکٹر ہیں انہیں گذشتہ کل کی کہانی سنائی تو ہسپتال کے بستر پر لٹا دیا اور دل کے مریض کی تشخیص سے متعلق جو کرنا تھا کر کے کہنے لگے، زیادہ پریشانی کی بات نہیں لیکن معاملہ دل کا ہے اس لئے آپ CMH چلے جائیں، میری پریشانی لازم ہے اور بڑھ گئی دوسرے دن شام چار بجے CMH پہنچ گیا۔ ایک اعلیٰ فوجی ڈاکٹر نے فائل دیکھی اور مجھے دوڑانے والی مشین پر دوڑنے کو کہا، میں چونکہ روزانہ صبح کی سیر میں دوڑ لیا کرتا ہوں مشین پر دوڑنے کے بعد ڈاکٹر صاحب کے سامنے آکر بیٹھ گیا، میری سانس پھولی نہیں تھی۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے! دل کی شریانوں میں خون کی گردش میں کچھ رکاوٹ ہے بہتر ہو گا کہ آپ اسٹینٹ ڈالوالیں۔
اسٹینٹ ایک چھوٹی جالی نما ٹیوب ہے جو تنگ اور مسدود شریانوں میں ڈالی جاتی ہے جو دل کے شریانوں کو کھلا رکھنے میں مددگار ہوتی ہے ، تین ڈاکٹروں کی تشخیص میں، میں دل کا مریض ہوگیا۔ اسٹینٹ ڈلوانے کے لئے پہلے دوست ڈاکٹر نے مشورہ دیتے ہوئے کہا آپ اسٹینٹ ڈلوانے کے لئے دو تین لاکھ روپے ساتھ لے کر الشفا ہسپتال اسلام آباد چلے جائیں۔
دو دن بعد میں اپنوں کے ساتھ الشفأ ہسپتال اسلام آباد ایسی حالت میں چلا آیا جیسے مقتل جارہا ہوں، دل کے امراض کے شعبے میں آیا تو ریسپشن میںکاونٹر پر تشریف فرما اسسٹنٹ نے میری فائل دیکھ کر کہا ، آپ اسٹینٹ شعبے میں جانے سے قبل امراضِ دل کے ڈاکٹر صاحب کو اپنی فائل دکھائیں تو بہتر ہے۔ تھوڑی ہی دیر بعد ڈاکٹر صاحب تشریف لائے جو کہ پختون تھے، ڈاکٹر صاحب کو صورتِ حال بتائی تو میری فائل ایک طرف رکھ کر کہنے لگے سگریٹ پیتے ہو؟ میں نے کہا نہیں، ایکسرسائز کرتے ہو؟ میں نے کہا روازنہ ایک گھنٹہ صبح کی سیر کرتا ہوں، سانس پھولتا ہے؟ میں نے کہا نہیں، سانس لینے میں کوئی تکلیف محسوس کرتے ہو؟ میں نے کہا نہیں، آپ کے خاندان میں کوئی دل کا مریض ہے؟ میرا جواب نہیں میں تھا، توڈاکڑ صاحب نے میرا بلڈ پریشر دیکھنے کے بعد کہا، آپ کو دل کا کوئی عارضہ نہیں مسئلہ آپ کے معدے میںہے میں ایک ہفتے کی دوا لکھ دیتا ہوں دوا کھائیں اور اپنے دل کو پریشان مت کریں اس کو اپنی مرضی سے دھڑکنے دیں، ڈاکٹر صاحب کے اس مشورے سے میرے ساتھ میرا دل ابھی تو میں جوان ہوں کے دھن پر رقص کرنے لگا میں ڈاکٹر صاحب کا اور کاؤنٹر میں بیٹھے اسسٹنٹ کا شکریہ ادا کر کے ایسی خوشی میں کھاریاں واپس آیا جیسے بارات میں گیا تھا۔
دل کے نام نہاد عارضے کی اس کہانی کو آٹھ سال ہو گئے ہیں بفضل خدا آج بھی جوانوں کی طرح دھڑک رہا ہے اور میں زندگی کی 72 ویں بہار دیکھ رہا ہوں۔
قارئین؛ یہ ہے وہ کہانی جو مجھ پر بیتی اس لئے میرا مشورہ ہے کہ ڈاکٹر اگر کسی پیچیدہ مرض کے بارے میں آپ کو بتاتا ہے تو گھبرانے کی بجائے دو تین ڈاکٹروں سے مشورہ کرلیا کریں لیکن ایک غلطی مت کریں جو میں کرچکا ہوں، ایک ڈاکٹر کی فائل دوسرے ڈاکٹر کو مت دکھائیں ورنہ وہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کرے گا اس لئے کہ ہر ڈاکٹر خدا ترس نہیں ہوتا