کرونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے (مرزا وصی الدین)

ایک سانپ اپنے زہر کی تعریف کر رہا تھا کہ میرا ڈسا پانی تک نہیں مانگتا- پاس بیٹھے مینڈک نے کہا لوگ تیرے خوف سے مرتے ہیں زہر سے نہیں اور یہ بات میں تمھیں ابھی اسی وقت ثابت کرسکتا ہوں-سانپ بولا تم میرے زہر کی طاقت سے ناآشنا ہو چلو اپنا شوق پورا کرلو اور دونوں میں شرط لگ گئی سانپ نے کہا اگر تمہاری بات سچ ثابت ہوئی تو میں تمھیں آج کے بعد اپنا استاد سمجھوں گا مینڈک نے کہا ٹھیک ہے اگر میری بات غلط ثابت ہوئی تو تم مجھے سزا کے طور پہ ڈس لینا- اب سانپ اور مینڈک کے درمیان طے پایا کہ پہلے کسی راہ گیر کو سانپ چھپ کے ڈسے گا اور عین اسی وقت مینڈک اس راہ گیر کے سامنے آئے گا اور اس کے بعد کسی دوسرے راہ گیر کو مینڈک کاٹے گا اور سانپ سامنے آۓ گا-تھوڑی دیر میں ایک راہ گیر آتا دکھائی دیا مینڈک بولا تم تیار رہنا جیسے ہی راہ گیر قریب پہنچا تو سانپ نے اسے چھپ کے ڈسا اور راہ گیر کی ٹانگوں کے بیچ سے مینڈک پھدکتا ہوا نکلا- راہ گیر جو ایک لمحہ پہلے پریشان تھا مینڈک پہ نگاہ پڑتے ہی زخم کو کھجاتا ہوا تسلی سے چل پڑا کہ مینڈک ہے سانپ نہیں-خیر مینڈک اور سانپ دونوں راہ گیر کو دور تک جاتا دیکھتے رہے اور وہ سہی سلامت چلا گیا- اب معاہدے کے تحت مینڈک نے کسی راہ گیر کو کاٹنا تھا اور سانپ نے سامنے آنا تھا کچھ ہی دیر میں ایک دوسرے راہ گیر کا وہاں سے گزر ہوا اور مینڈک نے چھپ کے راہ گیر کو کاٹا اور سانپ پھن پھیلا کے سامنے آگیا- راہ گیر سانپ کو دیکھتے ہی دہشت سے فورأ مر گیا-مینڈک نے کہا دیکھا تم نے کہ لوگ تمہارے زہر سے مریں یا نہ مریں پر تمہاری دہشت سے ضرور مر جاتے ہیں-سانپ نے بھی شرط کے مطابق مینڈک کو اپنا استاد مان لیا-اب یہی صورتحال اس وقت دنیا بھر میں کرونا وائرس کی ہے- دنیا میں ہر روز ہزاروں افراد مرتے ہیں جن کو دیگر امراض ہوتے ہیں یاکوئی بھی مرض نہیں ہوتا جبکہ کرونا کی شرح اموات اس کا عشر عشیر بھی نہیں- خدارا سوشل میڈیا پر مایوسی مت پھیلائیں-مسلمان موت سے نہیں ڈرتا ہمیں کرونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے اور جب تک کرونا کا خوف ہم پہ طاری رہے گا ہم اس مہلک وائرس کو شکست نہیں دے سکتے-ہمارا ایمان ہے کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے جس نے نہ پیغمبروں کو چھوڑا نہ ولیوں کو تو ہم ناچیز کیا حیثیت رکھتے ہیں- قرآن پاک میں ہے کہ ہر زی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے تو پھر ڈرنا کس بات کا…؟ موت جب ہر حال میں آنی ہے پھر کرونا سے ڈرنا کیسا..؟ ہاں البتہ احتیاط لازم ہے لیکن خوف کو خود سے الگ کر دیں- خوف اور مایوسی سے انسان کی قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے جو کسی بھی بیماری سے لڑنے کے لیے انتہائی ضروری چیز ہے-کرونا کےہزاروں مریض صحت یاب ہو چکے اور ہر روز ہو رہے ہیں لیکن صرف وہ متاثرہ افراد صحت یاب ہوئے ہیں جنہوں نے کرونا کے خوف کو خود پہ طاری کرنے کے بجائے ٹھڈے مارے- موت اسی کو آتی ہے جس کی زندگی کے دن پورے ہو چکے ہوں- کرونا چھوت کا مرض ہے ایک سے دوسرے شخص کو فوری لگتا ہے اس لیے احتیاط ضرور برتیں لیکن اس خوف کو ذہن میں بٹھا کے موت سے پہلے اپنی زندگی کو موت سے بدتر نہ کریں- آپ جینے کی امنگ خود میں پیدا کریں گے تو کوئی وائرس آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا- آواز خلق نقارہ خدا”اللہ ہمیں وہی دے گا جس کی ہم اللہ سے امید رکھتے ہیں- اللہ تعالی کی شان ہے کہ وہ آپ کی امنگوں پر پورا اترتا ہے لہٰذا اچھی امید رکھو گے تو اچھا ہی ہوگا-

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں