تحریر: ڈاکٹر ظہور احمد دانش.
افواہوں کا دور ہمارے معاشرے میں ایک ناگوار حقیقت بن چکا ہے۔ اس دور کی خصوصیت یہ ہے کہ افواہیں بغیر کسی تحقیق کے تیزی سے پھیلائی جاتی ہیں اور سمجھدار افراد بھی انہیں بغیر سیاق و سباق کے قبول کر لیتے ہیں۔ ان حالات میں افواہ کا توانا نظام معاشرے میں تفرقہ و انتشار کا باعث بنتا ہے۔
افواہ ایسی غلط یا ادھوری معلومات ہے جو تحقیق کے بغیر تیزی سے پھیل جائے۔ افواہیں عام طور پر سیاسی، سماجی، اور فردی شخصیات کے متعلق ہوتی ہیں۔ ان افواہوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ اکثر مزاحیہ یا تلخ و شریر الفاظ کی شکل میں پھیلائی جاتی ہیں۔
ایک لمحے میں معلومات کو شیئر کرنے کا رجحان فردی سطح پر سوچ و بچار کے بغیر افواہوں کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔افراد بغیر حقائق معلوم کیے افواہوں پر اعتماد کر لیتے ہیں۔افراد یا تنظیمیں مخالفین کو نقصان پہنچانے کے لیے افواہوں کا سہارا استعمال کرتے ہیں۔
افواہیں عام طور پر غلط تفسیر کی وجہ سے معاشرے میں تفرقہ اور انتشار پیدا کرتی ہیں۔لوگ ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ختم کر دیتے ہیں۔فراد غلط معلومات کی وجہ سے ذہنی دباؤ اور تردد کا شکار ہوتے ہیں۔افواہوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے معاشرے میں حکمت اور دانائی کو فروغ دینا بہت ضروری ہے۔ افواہوں کا شکار ہونے سے پہلے چند نکات پر غور کریں:
الفاظ کے اثرات پر غور کریں:ایک حدیث شریف میں ہے: “جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔” (بخاری و مسلم) یہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ ہر بات کہنے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ یہ بات کس قدر مفید یا نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
قرآن کریم میں فرمایا گیا: “اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر نادم ہو۔”(الحجرات: 6) اس آیت کا مقصد ہمیں جھوٹی خبروں کے اثرات سے بچانا ہے۔افواہوں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہمیں اپنی زندگی میں سچائی اور دیانت داری کو شامل کرنا ہوگا۔ سچائی ایک ایسی صفت ہے جو معاشرے کو مضبوط اور پائیدار بناتی ہے۔لوگوں کو آگاہ کیا جائے کہ افواہوں کے نتائج کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں۔
غلط معلومات کے فوری تدارک کے لیے ایک منظم نظام بنایا جائے۔قرآن و حدیث کی روشنی میں لوگوں کو افواہوں سے بچنے اور سچ بولنے کی تلقین کی جائے۔کسی بھی خبر کو آگے بڑھانے سے پہلے اس پر غور کریں اور صبر سے کام لیں۔
معاشرے میں افواہوں کے منفی تاثیرات سے بچنے کے لیے فردی اور اجتماعی طور پر ایک ذمہ دارانہ رویہ اپنانا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم قرآن و سنت کی تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں شامل کریں اور سچائی کو اپنا شعار بنائیں تو افواہوں کا یہ سلسلہ رک سکتا ہے۔ دانائی کے ساتھ فیصلہ کرنا اور حکمت کے ساتھ عمل کرنا ہی ایک کامیاب اور مضبوط معاشرے کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
سچائی کی شمع جلاؤ، روشنی ہو ہر گلی میں
زباں کی لغزشوں سے بڑھ کے ہے افواہ کا زہر
جو دلوں کو توڑ دے، وہ الفاظ کا قہر
بات کرنے سے پہلے سوچ لو، الفاظ ہیں امانت
افواہ کے تیر نہ چلاؤ، یہ ہے بدگمانی کی علامت