نئی ترمیم میں‌ سنگین خامی،آئینی بنچ کی تشکیل میں رکاوٹ کاامکان

اسلام آباد: حال ہی میں پارلیمنٹ سے منظور کرائے گئے آئینی پیکیج کی مسودہ سازی میں کچھ ایسے مسائل موجود ہیں جن کی وجہ سے الجھاو پیدا ہو رہا ہے لیکن ایک اہم ماہر قانون نے ”سنگین خامی“ کی نشاندہی کی ہے کہ اگر اس خامی کو 27 ویں ترمیم کے ذریعے حل نہ کیا گیا تو سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کی تشکیل میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔ سابق اٹارنی جنرل نے بتایا ہے کہ سنگین خامی کی وجہ سے نیا جوڈیشل کمیشن بنایا جا سکتا ہے اور نہ کوئی آئینی بینچ مقرر کیا جا سکتا ہے تاوقت یہ کہ پارلیمنٹ 27ویں ترمیم کے ذریعے اس شق میں ترمیم نہ کرے۔

انہوں نے بتایا، ”میرے خیال میں اس وقت تک پرانے بینچ چلتے رہیں گے اور کوئی آئینی بینچ نہیں ہوگا۔“ سابق اٹارنی جنرل نے حالیہ آئینی ترامیم کی زبان میں ابہام اور مسودہ سازی کی کچھ غلطیوں کی بھی نشاندہی کی لیکن آئینی بینچوں کے بارے میں ان کا نظریہ واقعی تشویشناک ہے۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور اعوان سے رابطے کی متعدد کوششیں کیں لیکن دونوں میں سے کسی نے جواب نہیں دیا۔آئینی بینچوں کی تشکیل میں پائی جانے والی خامی کے بارے میں سابق اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 191 اے کے مطابق، آئینی بینچوں میں نامزدگی اور تعین جوڈیشل کمیشن کو کرنا ہے۔ آرٹیکل 175A(1) کے مطابق، جوڈیشل کمیشن میں آئینی بینچوں کے سب سے سینئر جج یا ججوں کو شامل کرنا ضروری ہے جو کہ ابھی بننا باقی ہیں۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ آئینی بینچوں کے جن سینئر ترین جج یا ججز کا تقرر ہونا ابھی باقی ہے وہ جوڈیشل کمیشن کے ممبر بھی ہوں گے۔ یہ ایک سنگین خامی ہے کیونکہ نیا جوڈیشل کمیشن بنایا جا سکتا اور نہ کوئی ا?ئینی بینچ مقرر کیا جا سکتا ہے تاوقتیکہ پارلیمنٹ 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اس شق میں ترمیم نہ کرے۔

میرے خیال میں اس وقت تک پرانے بینچ قائم رہیں گے اور کوئی آئینی بینچ نہیں ہو گا۔ میڈیا پہلے ہی چیف جسٹس کی تقرری کے طریقہ کار میں ابہام کی بات کر رہا ہے۔ یہ الجھن اس صورتحال سے متعلق ہے جب تین سینئر ترین ججز میں مقرر ہونے والا جج چیف جسٹس بننے کی پیشکش قبول نہ کرے۔نئی آئینی ترمیم میں بظاہر یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ ایسی صورت میں باقی رہ جانے والے دو سینئر ترین ججز میں سے سینئر ترین جج کے نام پر چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کیلئے غور کیا جائے گا۔لیکن، کابینہ کے کچھ اہم ارکان حتیٰ کہ (چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کیلئے تین سینئر ججز میں سے ایک کا انتخاب کرنے والی) خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے کچھ ارکان یہ نہیں جانتے تھے کہ نئی آئینی دفعات میں کس بات کی عکاسی ہوتی ہے۔

کمیٹی کے کم از کم دو ارکان نے کہا ہے کہ ٹاپ تین میں کوئی نامزد جج چیف جسٹس بننے سے انکار کر دے تو چوتھے سینئر ترین جج کے نام پر غور کیا جا سکتا ہے۔ اس معاملے پر، سابق اٹارنی جنرل نے بتایا کہ چیف جسٹس پاکستان کے تقرر کیلئے آرٹیکل 175A (3) تین مراحل کے تحت اقدام کا تصور پیش کرتا ہے۔پہلے مرحلے میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں میں سے ایک کا نام نامزد کرکے بھیجتی ہے۔ بالفرض، کمیٹی ارکان تینوں میں سے ایک یا پھر تیسرے سینئر جج کا نام تجویز کرتے ہیں اور وہ جج اپنی نامزدگی قبول کر لیتا ہے تو معاملہ وہیں ختم ہو جاتا ہے لیکن اگر وہ جج نامزدگی قبول کرنے سے انکار کر دے تو ہمیں پہلی شرط (Proviso) کو دیکھنا ہوگا۔

دوسرا مرحلہ پہلی شرط: باقی رہ جانے والے سینئر ججز میں سے ایک جج کے نام پر غور کیا جائے گا۔ سادہ الفاظ میں پڑھیں تو اس کا مطلب یہ ہے باقی رہ جانے والے دو سینئر ججز میں سے ایک کے نام پر غور ہوگا۔ اس تشریح کی تائید ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ ”تین سینئر ترین ججز میں سے باقی ماندہ۔“ اگر آپ کمی کے بعد کوما کا تصور کرتے ہیں، تو صورتحال اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔لہٰذا، اگر جسٹس یحییٰ انکار کر دیتے ہیں تو ایسی صورت میں دو ججز یعنی جسٹس منصور یا پھر جسٹس منیب کے نام پر غور کیا جا سکتا ہے۔ اس بات کی تائید دوسری شرط (Proviso) میں لفظ ”also“ کے استعمال سے بھی ہوتی ہے۔ Also کا استعمال دوسرے نام کی کمی یا دوسری نامزدگی کے انکار کی صورت میں ہی ہو سکتا ہے نہ کہ پہلی نامزدگی کے انکار یا پہلے نام کی کمی کی صورت میں۔

تیسرا مرحلہ، دوسری شرط: اس کے بعد چوتھے سینئر ترین جج پر غور کیا جا سکتا ہے اور اس طرح یہ پیشکش جاری رہ سکتی ہے۔ یہ صورتحال معنی خیز ہے کیونکہ، کمیٹی کو یہ معاملہ پہلے تین سینئر ججز کے ناموں پر غور اور ایک نامزدگی کرکے ختم کرنا ہوگا۔ کمیٹی کو تین سینئر ترین ججوں میں سے ترجیحات کو تبدیل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔کمیٹی ارکان صرف اسی صورت میں چوتھے سینئر جج کے نام پر غور کر سکتے ہیں جب پہلے دو سینئر ججز پیشکش کے بعد عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیں۔ سابق اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مجھے یہ شق پڑھنے پر کچھ ایسے ہی سمجھ آرہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی یہ تشریح، کہ ناموں میں پہلی کمی کے بعد وہ چوتھے جج کے نام پر جا سکتے ہیں، شق کی سادہ زبان سے متصادم ہے۔ اگر تین سینئر ترین ججوں میں سے کسی ایک جج کے بجائے وہ ”تین سینئر ترین ججوں کے علاوہ“ کے الفاظ استعمال کرتے تو حکومت کی تشریح قابل قبول ہوگی۔

قانونی اور آئینی ماہرین نے سابق اٹارنی جنرل کی جانب سے جس خامی کی نشاندہی کی گئی ہے اس پر اختلاف رائے پیش کیا ہے۔ جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ اگر سینئر ترین ججوں کو آئینی بینچ اور جوڈیشل کمیشن کے ممبران کے طور پر نامزد کیا جاتا ہے تو پھر کسی ترمیم کی ضرورت نہیں رہے گی۔انہوں نے کہا کہ آئین کی مختلف شقوں کو ہم سنکرونائیز اور ہارمونائز کرنے کی ضرورت ہے۔سینئر قانون دان اور ماہر آئین وسیم سجاد کا کہنا ہے کہ ان کے پاس تصدیق کیلئے متن موجود نہیں ہے۔ اگر سابق اٹارنی جنرل جو بات کہہ رہے ہیں وہ حقیقتاً درست ہے تو ان کا مشاہدہ درست ہے۔سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کی رائے ہے کہ اگر آئینی بینچ کی تشکیل کیلئے جوڈیشل کمیشن کے دو یا تین ارکان دستیاب نہ ہوں تو دستیاب ارکان آئینی بینچوں کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور اس کیلئے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں