اب جب ریاست کے معاشی سے لیکر دفاعی معاملات تک امریکی برطانوی بلاک سے نکل کر ماضی کے لیفٹ کے سپہ سالار روس اور حال کے سوشلسٹ معیشت کے علمبردار چین کے ساتھ وابستہ ہوئے ہیں تو وطن عزیز میں خود کو لیفٹ کے ساتھ وابستہ رکھنے والے دانشوروں کا آدھا لیفٹ “رائٹ “کے ساتھ کھڑا ہے اور آدھا سرگرداں اور حیراں ۔ شاید فوکویاما کی اینڈ آف دا ہسٹری پر کچھ زیادہ ہی یقین کر گئے ۔ کعبہ کیا بدلا کہ ہیگل کی ڈائی الیکٹزم اور مارکس کی تاریخ کی مادی جبریت کا فلسفہ بھی یاد نہ رہا اور لبرل ، نیو لبرل ، آزاد منڈی کی معیشت کے نظام میں آنے والے بحرانوں کو سمجھ نہیں پارہے ۔ یہ دیکھ ہی نہیں پا رہے کہ ساوتھ افریقہ سے لیکر اٹلی ،فرانس ، گریس ، ترکی ، ایران اور پاکستان سمیت کئی ممالک میں معاشی حالات ہی عوامی فرسٹریشن کو بڑھا کر سیاسی تبدیلیوں کا باعث بن رہے ہیں ۔
صورتحال یہ کہ دنیا ایک دفعہ پھر دو بلاکوں میں بٹتی جا رہی ہے ۔ جس میں چینی روسی بلاک پھیل رہا ہے اورامریکی یورپی بلاک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ ہاں البتہ ماضی کے روسی سینٹرک کمیونسٹ بلاک اور حال کے چین سینٹرک بلاک میں فرق یہ ہے کہ اس دفعہ کا “لیفٹ “سرخ ، ملحد ، کمیونسٹ والا قابل نفرت لیفٹ نہیں ہے بلکہ اس دفعہ چائنا کا لیفٹ ہے جو روسی کمیونزم کی طرح مذہب کے پیچھے ہاتھ دھو کر نہیں پڑتا کہ جو اپنے معاشی نظام کے ساتھ ساتھ اپنا نظریہ حیات بھی نافذ کرنا چاہتا ہو اور مذہب کو جڑ سے اکھاڑنا بھی اسکے مقاصد میں سے ایک مقصد ہو ۔ لینن اور اسٹالن کے برعکس شی چن پنگ کی زیرِ قیادت چینی لیفٹ شئیرڈ پروسپیریٹی کا وژن رکھتا ہے ۔ جس میں معاشی تعلقات بنیادی اہمیت رکھتے ہیں نہ کہ کسی ملک کے مذہبی عقائد ۔
چینی عوام کا یہ کہنا ہے کہ ماؤزے تنگ نے چین کو آزاد کرایا تھا ڈینگ جیاؤ پنگ نے امیر کیا اور شی چن پنگ اسے طاقتور بنا رہے ہیں ۔ چین ،افریقہ اور یورپ کے ملکوں کو تجارتی معاہدوں اور راستوں میں جوڑ کر ساڑھے تین ارب سے زائد انسانوں پر مشتمل ممالک کا ایک نیا بلاک تشکیل دے رہاہے اور تیزی سے چھاتا جا رہا ہے ۔ چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں سی پیک کو فلیگ شپ پراجیکٹ کی حیثیت حاصل ہے ۔ اور اسی وجہ سے پاکستان اس بلاک کاانتہائی اہم کھلاڑی ہے۔ شنگھائی کوآپریسن آرگنائیزیش سے لیکر ون بیلٹ ون روڈ کی صورت میں طاقت پکڑتے اس نئے چینی روسی بلاک میں ماضی کے برعکس روس اب بڑا بھائی نہیں رہا بلکہ چین کی حیرت انگیز معاشی ترقی سے لیکر سائینس و ٹیکنالوجی کے میدان میں کی جانے والی پیش قدمیوں نے چین کو اس بلاک میں بگ برادر کی حیثیت عطا کردی ہے ۔ شئ چن پنگ اس وقت دنیا کے جہانگیر ترین بنے ہوئے ہیں اور امریکہ کے اتحادیوں کو ایک ایک کر کے توڑتے چلے جارہے ہیں ۔ اس نئے بلاک میں پیسہ چین کا اور دفاعی اور جاسوسی کا نیٹ ورک روس کا چلے گا ۔ روس میں جاری ایس سی او کے بینر تلے اس اتحاد میں شامل آٹھ ممالک کی فوجی مشقیں کا مقصد اس نئے بلاک کی دفاعی قوت کا اظہارکرنا ہے ۔
ادھر امریکہ کی حالت یہ ہے کہ ٹرمپ امریکہ کا گوربا چوف ثابت ہونے جارہا ہے کہ جس طرح گوربا چوف کے روس میں پروستروئیکا یعنی اصلاحات کے نام پہ کی جانے والی حماقتوں نے روس کے ایک ایک اتحادی کو ناراض کرکے امریکی بلاک میں پھینکا اور پہلے سے افغان جنگ سے تھکے ہوئے سرخ ریچھ یعنی روس کے انتشار پر مہر لگائی تھی ویسے ہی ٹرمپ کے ٹوئیٹس اور تجارتی جنگیں امریکہ کو تنہا کرتی جارہی ہیں ۔ چین کی معاشی ترقی کو لگام دینے کے لئیے چھیڑے جانے والی تجارتی جنگ کا حجم بڑھتا جا رہا ہے جس کا چین ڈالر بائی ڈالر جواب دے رہا ہے ۔ کینیڈا سے الگ پھڈا ، روس سے گیس لینے پر جرمنی کو پھٹکار ، جی سیون کے اجلاس میں یورپی یونین میں شامل ملکوں پر بھی ڈیوٹیز لگانے کا اشارہ جسکے جواب میں یورپی یونین کے چوبیس ممالک نے بھی امریکی مصنوعات پر جوابی ڈیوٹی لگانے کی تیاری کرلی ہے ۔ نارتھ اٹلانٹک فری ٹریڈ ایگریمنٹ ختم کرکے لاطینی امریکہ کے ممالک سے بھی دوستی ختم ۔
نیٹو اتحاد بھی اپنی افادیت کھوتا جارہا ہے ۔ نیٹو اتحاد میں شامل ممالک بھی ٹرمپ کے پروستروئیکا ٹائپ اقدامات کی ذد میں ہیں ۔ گزشتہ نیٹو کے اجلاس میں ٹرمپ نے نیٹو کے خرچے سے ہاتھ اٹھاتے ہوئے نیٹو ممالک کو اپنا حصہ بڑھانے اور جی ڈی پی کا 4 فیصد دینے کا مطالبہ کیا ہے ۔ پھر ترکی کا نیٹو کا رکن ہونے کے باوجود شام میں امریکہ کے خلاف روس اور ایران کا ساتھ دینا ساتھ میں روس سے S400 میزائل سسٹم کی خریداری کینسل نہ کرنے کی پاداش میں امریکہ کی جانب سے کرنسی کا کوڑا کھانا نیٹو اتحاد میں پڑتے شگاف کو واضح کررہا ہے ۔
پاکستان کی بات کریں تو ادھر پاکستان میں تقریبا ڈیڑھ ماہ پہلے چین ، روس ، ایران کے انٹیلجنس چیفس کا آنا اور پاکستانی آئی ایس ائی چیف سے ملنا پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں انہونا واقعہ ہے یعنی اب امریکہ کے ساتھ انٹیلیجنس شئیرنگ کو بھی کم ترین سطح پر رکھا جائیگا ۔ یعنی ہماری ملٹری امریکی اثر سے نکل چکی ہے تو یہی تو ہمارا لیفٹ صدیوں سے چاہتا تھا تو اب لیفٹ کو کیا مسلہ ہے کہ عمران خان اگر چینی ماڈل سے استفادے کی بات کرتے ہیں تو یہ احباب چین اور چین کے ساتھ تعلقات کے اندر بھی کیڑے نکالنے شروع کر دیتے ہیں ۔
ریاستی ادارے اس حقیقت کا پہلے ہی ادراک کر کے خود کو اس نئے بلاک کے ساتھ ہم آہنگ کر چکے ہیں ۔ پاک فوج کی جانب سے سی پیک کی سیکیورٹی کی ضمانت دینا ، دو ڈویژن فوج صرف سی پیک کی سیکیورٹی کے لیئے مختص کرانا ، راحیل شریف کا روس سے دفاعی تعلقات کا آغاز کرنا اور جنرل باجوہ کا جرمنی میں خطاب کرتے ہوئے سرد جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کو غلطی قرار دینا اور اب پاکستان کے فوجی افسران کا تربیت کے لئیے روس کی ملٹری اکیڈمی جانے کا معاہدہ پاکستان کے ریاستی اداروں کی پالیسی شفٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ ہم اب اس بلاک میں آچکے ہیں جسے ماضی میں کبھی لیفٹ ، سرخے، کمیونسٹ ، کافر ، ملحد ، ماسکو نواز وغیرہ وغیرہ کے القاب سے پکارا جاتا تھا اور جسکا نام لینے سے ہی کفر کا فتویٰ لگ جاتا تھا۔ حتی کہ ایک سویلین لیڈر کو اسی فوج کے جرنیل نے سوشلسٹ بلاک سے پینگین بڑھانے پر پھانسی پر چڑھادیا ۔
لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہی ملڑی امریکہ کے ڈو مور کے مطالبے کے جواب ترنت اسی امریکہ کو یو ڈو مور کہہ کر چپ کرارہی ہے ۔ امریکہ کے ساتھ ملٹری ٹو ملٹری تعلقات کا بھی اختتام کر دیا گیا ہے اور امریکی اسٹیبلشمنٹ اسی بات پر تلملا رہی ہے پاکستان کی ریاست امریکہ کو اب ایک سے ایک تگڑا جواب دے رہی ہے ۔چاہے اسد عمر کی صورت میں امریکہ کو اسکے اپنے قرضے یاد دلانا یا پھر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ گفتگو کے امریکی اعلامیے کو ببانگ دہل غلط قرار دینا ۔
یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے اقتدارا میں آنے کا تصور جس طرح یہاں امریکی اور بھارتی لائن پر چلنے والی قوتوں کے لئے سوہان روح بنا ہوا تھا وہیں امریکہ اور بھارت میں بھی عمران خان کا آنا سی پیک مخالف طاقتوں کے مفادات کے لییئے خطرناک تصور کیا جا رہا تھا ۔ اسی وجہ سے ہمیشہ سے امریکی اسٹیبلشمنٹ کی لائین پر چلنے والے نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ سے لیکر ہندوستانی اخبارات میں عمران خان کو فوج کا نمائیندہ بنا کر پیش کیا گیا اور انتخابی دھاندلی کا شوراور پروپیگنڈہ پہلے سے ہی شروع کر دیا گیا تاکہ آنے والی حکومت کا پہلے دن سے ہی دنیا کے سامنے ایک منفی تاثر اجاگر کیا جائے ۔ گو کہ امریکہ اور بھارت کو اس مقصد میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔ اورنئی حکومت کے بنتے ہی چین کے وزیراعظم کے فن سے لیکر دنیا بھر سے مبارکباد کے پیغامات اور پاکستان کا ساتھ دینے کے اعلانات نے پاکستان کو تنہا کرنے کے امریکی اور بھارتی خواب کو چکنا چور کردیا ۔
افسوس یہ ہے کہ لیفٹ کے نام پر ہر سال علامتی احتجاج کرنے والے دانشور بھی چین کے ون بیلٹ ون روڈ اور اس میں شامل ہونے سے سی پیک کے نتیجے میں پاکستان کو ملنے والے فوائد کو سمجھ نہیں پا رہے ۔ اور چین کے حوالے سے امریکی پراپیگنڈے کا شکار نظرآتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ چین سینٹرک یہ نیا بلاک اسی صورت امریکہ اور لبرل اکانومی کے حامی ممالک سے یہ جنگ جیت سکتا ہے کہ اسکا یورپ اور افریقہ کو چین سے منسلک کرنے والا معاشی منصوبہ ون بیلٹ ون روڈ کامیابی سے ہمکنار ہو اور چونکہ سی پیک ، اس ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں شامل چھ اکانومک کاریڈورز میں سے ایک کاریڈور ہے اور چین کے اوبر منصوبے کا فلیگ شپ پراجیکٹ بھی لہذا چین کسی صورت سی پیک کے راستے میں مشکلات نہیں آنے دینا چاہتا ۔ اور یہ وجہ ہے کہ پاکستان میں عدم استحکام ، چاہے وہ سیاسی ہو یا معاشی ، کراچی کا لا اینڈ آڑڈر ہو، سی پیک روٹ میں آنے والے راجن پور میں چھوٹے گینگ کی موجودگی ہو یا بلوچستان سے لیکر گلگت بلتستان میں ٹیررازم کی وارداتیں نا صرف پاکستان بلکہ چین کے اپنے مفاد میں بھی بالکل نہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کو اس حال میں پہنچانے میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ ، عدلیہ اور سیاسی اشرافیہ سب نے اپنے حصے کا گند ڈالا ہے ۔ ہم کبھی امریکی اور برطانوی اثرات سے کبھی نکل ہی پائے ، کبھی معاشیات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ، کبھی دنیا بھر کے خدا پرستوں کے نام پرہمارا بیڑہ غرق ہی ہوتا رہا ۔ لیکن اگر اس دفعہ ریاستی ادارے اور نئی آنے والی حکومت ایک صحیح بلاک کا حصہ بن رہے ہیں تو پھرہمارے دانشوروں کو بھی سوچنا چاہئے کہ کہیں وہ اس دفعہ دانستہ و نادانستہ انہیں سرمایہ دارانہ قوتوں کا ساتھ تو نہیں دے رہے جنہیں وہ خود انسانیت کے مسائل کا مجرم گردانتے ہیں ۔ عمران کو قابل نفرت گرداننے والے لیفٹ کے دانشورں کے لیئے منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والے ، ہمیشہ فوجی چھتری تلے اقتدار میں آنے والے ، سر سے پیر تک سرمایہ دار نواز شریف آئیڈیل کیسے بن سکتا ہے ۔ پھر سوال تو بنتا ہے کہ
چھوڑ کر سب دین و ایماں میر جسکے واسطے
میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا