تحریر: رقیہ فاروقی۔
زندگی میں کچھ لمحے یادگار ہوتے ہیں جنہیں دل دماغ اپنے اندر محفوظ کر لیتا ہے، لذت و حلاوت کے جھونکے پورےوجود کو معطر رکھتے ہیں. رواں ہفتے اللہ پاک نے کچھ ایسا ہی سفر مقدر فرمایا. اپنے خوب صورت دینی رشتوں کے ساتھ فیصل آباد کی طرف روانگی ہوئی، خشکی کا سفر تو بہر طور تھوڑا مشکل ہی کٹتا ہے. پہاڑوں کے ساتھ چلنے کی شاید عادت ہو چلی تھی. اس لئے موٹر وے کی لمبی سڑک بھوک کی بھنبھناہٹ کے ساتھ کسی قدر بوریت لیے ہوئے تھی. خدا خدا کر کے مقام تک پہنچ گئے.دروازے پر لگا ہوا تالہ خیالات کے ہجوم کو بہکانے لگا. بڑے لوگ عظیم ترتیبات، سوچ کر وکان الانسان عجولا کا مصداق بن گئے. لیکن جلد ہی توہمات رفع ہوے اور حاضری کا سندیسہ مل گیا۔
مدرسہ ضیا القرآن باغ والی مسجد میں ہم داخل ہوگئے. چند کنال پر پھیلی خوب صورت عمارت قرآن کے نغموں سے گونج رہی تھی. ایک کیبن میں ہمیں عزت احترام سے بٹھایا گیا. نائب صدر معلمہ استقبال کے لئے تشریف لائیں. کچھ یادداشتوں کے تبادلے ہوئے اور ہم مہمان خانے میں آرام کے لیے چلے گئے. نیند دست بستہ موجود تھی بستر پر دراز ہوتے ہی ہم قدم کر لیا.منظم نظام کے تحت اگلے دن کا آغاز ہوا. معلمہ مدیرہ کی حیرت انگیز کار گزاریاں سننے کو ملیں. ہم سفر بہن اپنی استاذ ہ کے قصے سنا کر محظوظ ہوتی رہیں. ہم بھی اپنے اساتذہ کی یاد سے دل کو سیراب کرتے رہے. صبح سے دوپہر ڈھل گئی. پھر ہمیں مدرسے کی عمارت دیکھنے کے لیے بلایا گیا.چھ منزلہ خوب منظم ومرتب ترتیب دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا. معلمات کا مدرسے کے ساتھ مخلصانہ رویہ ترقی کا راز نظر آیا. پھر مدرسے کے منتظمین کی اساتدہ پر شفقتیں بھی کوئی اچھوتا خیال لگ رہا تھا. اس سارے نظام کو دیکھ کر اس کی روح رواں کی زیارت کا بھی اشتیاق بڑ ھ گیا. تقریباً سہ پہر کے قریب ہمیں یہ شرف حاصل ہوا. کہ ہم بنت قاری رحیم بخش رح کی خدمت میں حاضر تھے. پروقار شخصیت اگرچہ بڑھاپے میں ڈھل چکی تھی. لیکن دوپٹے کے ہالے میں لپٹا چہرہ کوئی بقعہ نور لگ رہا تھا. چند منٹ کی گفتگو ساری زندگی کا خلاصہ سنا رہی تھی. استفسار ہوا. کہ مدرسہ کانظام کیسے منظم ہو. نہایت تمکنت اور وقار کے ساتھ گویا ہوئیں. اخلاص للہیت جی ہاں! اخلاص بنیاد ہے. قاری رحیم بخش رح کا واقعہ سنایا کہ قاری صاحب ملتان خیر المدارس میں کام کر رہے تھے. کراچی سےدوگنے معاوضہ پر خدمت کی پیشکش ہوئی. حضرت نے اپنی اہلیہ سے پوچھا. وہ کہنے لگی! کام کہاں ہو گا؟ فرمایا! ملتان میں اور عیش کراچی میں ہوگا. فرمایا! کام چاہیے. ہمیں قرآن کے کام کے لیے اللہ قبول فرمائے. پھر جم کر بیٹھ گئے۔
اللہ پاک نے پوری دنیا میں فیض کو عام کر دیا.اللہ پاک ہمیں بھی ان کے انوارات نصیب فرمائے آمینان کی زندگی کی اجلی یادیں کسی نقش ونگارکی طرح ہمارے دلوں کو مزین کر رہی تھیں. شاید لمحوں کی خاموشی میں ماضی کے دریچے وا ہوتے تھے اور رس گھولتی آواز مردہ دلوں میں زندگی کی امید جگا جاتی تھی. وہ گویا ہوئ! یاد رکھئے. شاگرد استاد کا پرتو ہوتا ہے. جی ہاں! میں نے اپنے والد صاحب اور دادااستاد قاری فتح محمد صاحب سے تربیت لی ہے. والد صاحب بچپن سے ہی تہجد کے لئے ہمیں اپنے ساتھ جگایا کرتے تھے. پھر بالترتیب والد صاحب، والدہ صاحبہ اور ہم بہن بھائیوں کے مصلے بچھتے تھے. دادااستاد کی گود میں ذکر کی مشق کی تھی. کھیل کھیل میں. اللہ حاضری، اللہ ناظری. اللہ معی، درد کے ساتھ اللہ اللہ کی ضرب لگانا سیکھ لیا تھا.بڑوں کے عشق قرآن نے بعد والوں کو بھی منعم علیھم جماعت بنا دیا. والدہ محترمہ کے ذکر کے ساتھ ان کی طویل دعائیں یاد آگئی. گھنٹوں اٹھے ہوئے خوب صورت ہاتھ جو کئ نسلوں کی ہدایت اور قبولیت کے لیے رب کے سامنے دراز رہتے تھے. میں نے مودبانہ عرض کی. کہ استقامت کیسے حاصل ہو. جواب تیار تھا. کہ رب سے مانگو. جو ہم نے مانگا ہے وہ ضرور ملا ہے اور جو نہیں ملا وہ ہم نے مانگا نہیں ہے. آپ تواہل قرآن ہیں. قیامت میں آواز لگے گی. یا اہل القرآن! کیا خوبصورت ندا ہوگی۔
کتنے عظیم ہوں گے وہ لوگ جو اس کے اہل ہوں گے. مختصر سی ملاقات اپنے اختتام کے قریب تھی. دعاؤں کی درخواست کی عرضیاں ہم پیش کر رہے تھے. وہاں سے بڑوں کی بڑی باتیں تھیں. کہ دعا کیجئے. کہ رب العزت راضی ہوجانے کے بعد ناراض نہ ہو. اللہ پاک ہمیں معاف فرما دے. مواخذے سے محفوظ فرما دے. ان الفاظ کے ساتھ وہ مشفق ہستی ہم سے جداہوئیں. اوروہ حسین یادیں ہمیشہ کے لیے دل پر ٹہھر گئ. لبوں میں جنبش ہوئی. بے اختیار زبان سے نکلا. کتاب ہدی میں وہ تاثیر دیکھیبدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی پھر کچھ وقت کے بعد ہم نے واپسی کا سفر کرنا شروع کیا. تشکر کے کلمات زبان پر جاری تھے. ایک نیا عزم خدمت قرآن کے لیے جیسے ہمیں ودیعت کر دیا گیا تھا. حامل قرآن بننے کی دعاؤں کے ساتھ عزیمت کی راہوں پرچلنےکے لیے جذبوں میں ایک نئی روح پھونک دی گئی تھی. انہی امید ویقین کےبیم سہاروں کے ساتھ سفر مکمل ہوا. اہل قرآن کی مجلس مبارک پایہ تکمیل کو پہنچی. پھر یادوں کے خوب صورت سندیسے ہم نے اپنے قلم کی حرکت سے سپرد قرطاس کر دیے.