3 صوبوں میں بجلی چوری کی شرح زیادہ

بجلی چوری قومی مسئلہ بن گیا، سرکاری دستاویز میں انکشاف ہوا ہے کہ بنوں، ڈی آئی خان، ٹانک اور شانگلہ میں 100فیصد صارفین کنڈا ڈال کر قومی خزانہ کو چونا لگا رہے۔بجلی چوری اور صارفین سے وصولیوں میں ناکامی کو ملکی معیشت کیلئے بڑا خطرہ قرار دے دیا گیا۔ سامنے آنے والی دستاویزات نے متعلقہ محکموں کا پول کھول دیا،افسوناک انکشافات سامنے آنے پر بجلی چوری کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا۔وزارت توانائی اور متعلقہ محکموں کی غفلت اور افسران کی ملی بھگت سے ملک میں ماہانہ اربوں روپے کی بجلی چوری ہونے لگی۔۔ملک بھر میں یومیہ ایک ارب 61کروڑ اور ماہانہ 49ارب 9 کروڑ روپے کی بجلی چوری ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
دستاویزات کے مطابق ملک بھر میں ماہانہ 49ارب 9 کروڑ روپے کی بجلی چوری ہو رہی ہے۔ ایک سال کے دوران ڈسکوز نے 116ارب50کروڑ یونٹس خریدے، 97ارب 34کروڑ یونٹس صارفین کو فروخت کئے اور 19 ارب 17کروڑ یونٹس چوری، کنڈے اور تکنیکی نقصانات کی نذر ہو گئے۔اس دھندے میں پشاور الیکٹرک سپلائی سرفہرست ہے۔ پیسکو میں 77ارب روپے کے 5ارب 70کروڑ یونٹس چوری ہو گئے۔خیبرپختونخوا کے چاروں اضلاع میں ایک سال سے کنڈے چل رہے ہیں۔حیدرآباد میں بل جمع کرانے کی شرح 5سے 6فیصد اور ٹنڈو اللہ یار میں 9 فیصد تک کم ہو گئی۔ سندھ کے مختلف اضلاع میں بھی کنڈا کلچر بڑھ گیا۔دستاویزات میں بتایا گیا کہ ٹنڈو محمد خان میں 15 فیصد ،شہید بے نظیر آباد 21فیصد، لاڑکانہ 60 اور سکھر میں 40 فیصد صارفین کنڈے ڈالتے ہیں۔ پشین، سبی، مکران، خضدار اور لورالائی میں 90فیصد کنڈا کلچر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں