یہ عشق نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجے ۔ ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے ۔۔ یہ شعر جب جب سنا تو پچاسی سے پچانوے کی دہائی کسی فلم کی طرح یادوں میں چلی آئی ۔ایس ایم ایس سے عاری ۔فیس بک اور واٹس ایپ سے خالی زمانے میں محبوب سے رابطہ کتنا دشوار تھا کوئی اس دور کے عاشق سے پوچھے ۔ جہاں ٹیکسٹ میسج کے نام پر خط و کتابت جبکہ آواز کا واحد آسرا ٹیلیفون سیٹ ہوا کرتے تھے ۔۔ ٹینا سے بات کرنی ہے تو پہلے چھوٹی بہن یا ننھی کزن کو منائیں ۔ اسے ٹافی یا شاہی سپاری کا لالچ دیں تب کہیں جا کر وہ ٹینا کی اماں یا ابا سے فون پر کہے گی کہ میں انکی دوست بات کررہی ہوں زرا بلادیں ۔ ٹینا کے آنے پر گھنٹوں کھسر پھسر جاری رہتی ۔ اور پھر بھاری بل آنے پر ابا ہوش ٹھکانے لگادیتے ۔ سامنے والی کھڑکی میں رہتے چاند کے ٹکڑے سے حال دل کہنا ہو تو گھر کا ڈیک یا ٹیپ ریکارڈر تیز آواز میں چلادیا جاتا ۔ جس پر پورے محلے میں چہ مگوئیاں ہوتیں ۔ بات پکی کرانی ہے تو بھابھی یا باجی کو بیچ میں ڈالیں تاکہ اماں ابا کو مکھن لگایا جا سکے ۔ عشق کامیاب ہو یا ناکام ۔ دونوں صورتوں میں مثال بن جاتا ۔۔ مزیدار بات یہ ہے کہ دل کی وارداتیں کسی خاص روز یا وقت کی قید سے آزاد تھیں .
تاہم تبدیلی آتی گئی وی سی آر کی جگہ ڈش انٹینا آیا پھر کیبل ٹی وی نے قدم جمائے ۔ 14 فروری سن دو ہزار میں اچانک اسکرین پر دل اور گلابوں کا میلہ لگ گیا ۔۔ معمول کی بات سمجھ کر نظر انداز کیا مگر ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا پروگرام تجسس بڑھا گئے ۔غور کرنے پر انکشاف ہوا کہ آج ویلنٹائنز ڈے ہے ۔ لیکن یہ ہے کیا بلا ؟ سوال کا جواب شام ڈھلے ملا جب میکڈونلڈز میں جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے نظر آئے یہ غالباً وہ لوگ تھے جنہیں اس روز کا ادراک یی یا آگاہی تھی۔۔ وقت کے ساتھ دھیرے دھیرے سے میری زندگی میں آنا کرنے والے ۔ ٹن ٹنا ٹن ۔ ٹن ٹن ٹارا چلتی ہے کیا نو سے بارہ کی آفر دینے لگے ۔ آخر کار منی کی بدنامی نے محبت بھی داغ دار کردی ۔ محض اس دن کو منانے کیلئے جوڑیاں بننے اور ٹوٹنے لگیں ۔ دس پندرہ سال تک پاکستان میں بھی یوم محبت دھوم دھام سے منایا جاتا رہا ۔۔
اس دوران دائیں بازو والے محلے یا خاندان کے چراندی لڑکے لڑکیوں کا کردار ادا کرتے نظر آئے جو نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے کی زد پر اڑے ہوتے تھے ۔ تنقید اور طنز کے تیر چلتے رہے حیا ڈے سے توڑ نکالا گیا مگر حقیقتاً سب بے سود رہا۔ تشہیر پر پابندی کے باوجود ویلنٹائنز ڈے اپنی جڑیں مضبوط اور چاہت میں فلرٹ کی ملاوٹ کرچکاہے۔ گئے سال ٹینا کے ساتھ بیٹھا جانی اس سال نازی کے ساتھ نظر آئے گا ۔ بالکل ایسے ہی جانی سے ناطہ توڑنے کے بعد ٹینا، مانی کا دامن تھام چکی ہے ۔۔ دعا کرتے ہیں کہ نازی اور جانی کے بعد شام اور شمانہ کی نوبت نہ آئے مگر امکان کم ہے ۔
اس تحریر کے سبب مجھے مغرب مخالف سمجھنے کی غلطی ہرگز نہ کی جائے۔ یوم محبت کے نام پر دنیا بھر جو گل کھلائے جارہے ہیں اس میں سینٹ ویلنٹینو کا کوئی قصور نہیں۔ لیکن حقائق سے انکار کیسے کریں ۔ جس طرح سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ہمارا ان سے کوئی مقابلہ نہیں ایسے ہی جذبات اور احساسات کی دوڑ میں وہ ہم سے بہت پیچھے ہیں یقین نہ آئے تو ایک نظر اپنے ڈراموں اور فلموں پر ڈالیں اور پھر مغربی میڈیا کو دیکھیں جہاں گیمز آف تھرونز جیسی سیریز کو پذیرائی ملتی ہے ۔ سائنس فکشن پر مبنی فلمیں آسکر جیت جاتی ہیں جبکہ ہمارے معاشرے میں میرے پاس تم ہو ۔ بلاک بسٹر ہے ۔ تیرے بن میرا جیون کچھ یہیں آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے کلچر کو کبھی ایسے کسی روز کی ضرورت نہیں پڑی۔ کاش ہمارے دانشور اسی کلچر کو فروغ دیتے ۔
میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ٹائی ٹینک کوئی لالی وڈ یا بولی وڈ کا فلمساز بناتا تو جیک کبھی تنہا نہیں ڈوبتا ۔ سمندر کی گہرائیوں میں جاتا دیکھ کر روز بھی ڈبکی لگادیتی ۔
اسی طرح والدین سے محبت صرف مدرز یا فادرز ڈے تک محدود کھرنا مناسب نہیں ۔ غور کریں تو ہمارا ہر روز اپنے والدین اور بھائی بہنوں کے نام ہوتا ہے ۔۔۔ بالکل اسی طرح محبت بھی کسی دن کی محتاج نہیں ۔ خیر تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں یہ میری ذاتی رائے تھی آپ اس سے اتفاق یا اختلاف کرسکتے ہیں.
(ممتاز رضوی)