عمران خان! لفظ‌ تبدیلی پر رحم کریں . (محمد شعیب یار خان)

عمران خان جب کرکٹ کھیلا کرتے تھے تب بھی سب کے مرکز نگاہ تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ایک کینسر اسپتال کی بنیاد رکھی جب بھی پوری دنیا ان کی مداح رہی اور ایک شاندار اسپتال بنا ڈالا ۔ اسکے بعد جدید یونیورسٹی کی بنیاد رکھی وہ بھی لاجواب۔ پھر سیاست کے پرخار راستے پر چل نکلے اور گزشتہ اکیس سال سے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے لئے بے تاج بادشاہ بھی ہیں۔
عمران خان ۔کامیابی جن کے قدموں کی دھول ثابت ہوئی۔۔ سیاست کے میدان میں بھی وہ کامیابی کے جھنڈے گاڑھتے ہوئے بہت جلد ہی ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت اور کچھ اندازوں کے مطابق دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات تک دوسری یا پہلی بڑی سیاسی جماعت بننے کے سفر پر رواں دواں ہیں۔
عمران خان جنہیں عوام کی بڑی تعداد اپنا لیڈر مانتی ہے اور ان کے ماضی کے کارناموں کی بنیاد پر پوری دنیا ان کی پرکشش شخصیت کی معترف ہے پرویز مشرف کے دور حکومت میں خان صاحب کے پاس فقط جب ان کی ذاتی نشست ہوا کرتی تھی تب ان کے کرپشن مخالف وژن اور انصاف کے نظام کی دلیلوں سے پاکستانی عوام کو لگتا تھا کہ اس فرسودہ سیاسی نظام میں عمران خان کی جماعت ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوگی۔
دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں انہوں نے اپنی سیاسی جماعت کو مزید منظم کیا اور دیگر سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے نام تحریک انصاف کا حصہ بن گئے ۔۔ لگتا تھا کہ عمران خان کے وزیراعظم بننے میں اب صرف اگلے الیکشن کا ہونا ہی باقی رہ گیا ہے ۔۔۔ عمران خان نے ببانگ دہل پیپلزپارٹی اور ن لیگ اور دیگر پر الزامات کی بارش کرکے عوام کی بھرپور توجہ سمیٹی۔۔ سیاست کے ایک پرانے کھلاڑی میاں نوازشریف پاناما اسکینڈل میں نااہل ہوئے تو یہ سہرا بھی عمران خان کے ہی سر سجا ۔۔ کرپشن کے ناسور کو جس طرح خان صاحب ٹارگٹ کرتے ہیں وہ قابل ستائش ہے۔
مگر ان سب کامیابیوں کے باوجود یہ کہنا کہ عمران خان انتہائی جذباتی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی معاملات کو انتہائی غیر سنجیدگی سے ہینڈل کرنے والے سیاست دان ثابت ہوئے ہیں غلط نہ ہوگا۔ وہ کسی پر بھی کوئی بھی الزام کبھی بھی لگاسکتے ہیں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں اور اپنے کہے پر انتہائی ڈھٹائی سے ڈٹے بھی رہتے ہیں چاہے ان الزامات کے ان کے پاس ثبوت ہوں یا نہ ہوں؟ اپوزیشن کے حکومت گراؤ جلسے میں انہوں نے اسی پارلیمنٹ کو جس کے وہ خود ممبر ہیں بار بار لعنت بھیج کر تو خود پر ہی خودکش حملہ کردیا جس کے بعد سے تحریک انصاف کے دیگر رہنما خود عمران خان کے اس بیان کے دفاع میں مشکل کا شکار دکھائی دیتے ہیں ۔۔
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ عمران خان عوامی جلسے کے دوران عوام کا جم غفیر دیکھ کر شاید اپنے جذبات اور زبان پر قابو نہیں رکھ پاتے اور وہ کچھ کہہ جاتے ہیں جس پر شاید وہ خود بھی نادم ہوتے ہوں مگر خان صاحب کے اس طرح کے بیانات سے جتنا نقصان وہ خود اپنی شخصیت اور پارٹی کا کررہے ہیں اس کا انہیں اندازہ نہیں ۔۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پارلیمنٹ پر لعن طعن کرنے سے قبل اپنی اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دیتے پھر ایک پارٹی قائد کی حیثیت سے کچھ کہتے تو پھر بھی شاید ہضم ہوتا مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پوری اسمبلی جہاں کے نمائندوں کو عوام نے اپنے قیمتی ووٹوں سے نامزد کرکے ممبر بنایا ہو جس میں پی ٹی آئی کے خود تیس سے زائد ممبر شامل ہوں اسی پارلیمنٹ کو عوامی جلسے میں لعنت دینا ظاہر کرتا ہے کہ عمران خان خود پسندی کی انتہاؤں کو پہنچ چکے ہیں ۔۔
عمران خان پورے ملک کو اپنی جاگیر سمجھنے لگے ہیں جو چاہے کہو کوئی روکنے والا نہیں تو اگر ایسا ہے توباقی سیاسی لیڈران اور رہنما جن کو عمران خان آئے روز اپنی زبانی تلوار سے لہولہان کرتے رہتے ہیں ان میں اور خان صاحب میں کیا فرق رہ گیا یہ کونسی تبدیلی ہے کہ ہر کسی پر الزام لگاؤ مغلظات کی برسات کرو اور پھر اپنے کئے پر شرمندہ ہونے کے بجائے بے تکی دلیلیں دو پھر اسی پارلیمنٹ پر حکمرانی کے خواب دیکھو ۔۔۔ اس تمام صورت حال سے ہٹ کر خان صاحب سے ایک سوال کہ اگر آئندہ آنے والے انتخابات میں آپ کی حکومت بن بھی گئی تو اس کے بعد بھی آپ کو اسی پارلیمنٹ میں جانا ہوگا ۔۔ دیگر جماعتوں کےجتنے ممبران آج اس پارلیمنٹ میں موجود ہیں کل آپ کے دور حکومت میں بھی ان میں سے کئی ممبران یقینا آپکےساتھی ہونگے گے اس وقت آپ کا کیا فیصلہ ہوگا کیا سب کے سب فرشتے بن جائیں گے؟ یا آپ اقتدار میں آنے کے بعد کس منہ سے اس پارلمنٹ میں جائیں گے؟۔۔
کیا عمران خان صاحب بھی بانی متحدہ قومی مومنٹ کی طرز پر سیایت نہیں کررہے کہ وہ جو کہیں جسے کہیں انکا حق ہے خود پر کوئی تنقید ہو تو وہ ناجائز اور وہ سارے سیاستدانوں اور جو انکے خلاف کچھ کہے اسکی شامت لے آئیں۔۔۔کیا خان صاحب کے گرد ابھی تک زیادہ تعداد ان لیڈران کی نہیں ہے جو کچھ عصے قبل تک دیگر جماعتوں کے وفادار اور خیر خواہ ہوا کرتے تھے۔
یہ کونسی تبدیلی ہے کہ جو عمران خان کے ساتھ شامل ہوجائے اس کے پچھلے سارے گناہ معاف۔۔۔اگر سب ایسا ہی ہے اور رہے گا توپھر کونسی تبدیلی کیسی تبدیلی۔۔۔۔ کیا یہ سب صرف کرسی کی جنگ ہے اور کرسی ملنے تک جاری رہے گی اور کرسی بھی صرف وزارت اعظمی کی۔۔۔تو اگر ایسا ہی ہے تو پھر ٹھیک ہی ہے۔ کونکہ آپ میں اور دوسروں میں کچھ فرق نہیں۔آج آپ انکو کل وہ آپ کو گالیاں دیں گے باقی ملک کا کیا ہے وہ تو اب بھی چل رہا ہے ان شاءاللہ کل بھی قائم و دائم رہے گا چہرے تبدیل ہونگے نظام وہی رہے گا۔مگر شاید لفظ ۔۔۔تبدیلی۔۔۔ سے عوام نفرت کرنے لگیں گے۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں