ذولفقارعلی بھٹو کے دور میں بھی چین اور روس کے بلاک سے منسلک ہونے کی قوم کو بڑی سزا دی گئی۔ امریکی اشاروں پر ایک فوجی ڈکٹیٹر نے اس وقت کی اپوزیشن کو ڈالروں کی لڑی میں پرو کر 9 ستاروں کی مالا بنائی اور قوم کے گلے میں ڈال کر پھر سے اس ملک میں کیپیٹلزم کو مضبوط کیا ۔ اور اب بھی اسی روس چینی بلاک سے دوستی پر ہی یہ امریکہ اور بھارت کا رونا پھر سے شروع ہو گیا ہے اور اپوزیشن بھی وہی کردار ادا کررہی ہے جو اس وقت بھٹو صاحب کی حکومت کے خلاف نو ستاروں کے اتحاد نے کیا ۔
ایک بار پھر سے چین اور روس کی گاڑی میں سوار ہونے والے پاکستان میں بھٹو صاحب کی طرح ہی متنازعہ انتخابات کا شور ، معاشی بدحالی کو درست کرنی کوششوں پر نکتہ چینی کا ہی ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے ۔ حالانکہ اس وقت بھی کون نہیں جانتا ہوگا اور آج بھی کون نہیں جانتا کہ پچھلے تیس سالوں کی معاشی گراوٹ اور کمزوریوں کو جمعہ جمعہ چار دن کی حکومت اور معاشیات کا آئین سٹائن بھی راتوں رات ٹھیک نہیں کر سکتا ۔
تو پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے ؟؟؟
وجہ یہ ہے ٹائم نہیں دینا ، ورنہ تو ملک سنبھل جائیگا اور پاکستان کا استحکام امریکہ اور بھارت کو چین کا استحکام نظر آتا ہے جو انکے وارے میں نہیں آتا ۔ جس تیزی سے پاکستان نے دو ماہ میں ہی خارجہ محاذ پر بھارت کو پسپائی دی اتنی ہی تیزی سے اسکی معیشت بھی پروان چڑھنے لگی تو نتیجہ سی پیک کی مضبوطی، پاکستان اور چین کا استحکام ہوگا ۔ اور اگر ایسا ہوا تو بھارت کا خطے کا چھوٹا چوہدری بننے کا خواب چکنا چور ہوجائیگا اور امریکہ کو اس خطے سے ہی دیش نکالا مل جائیگا ۔ جس افغانستان میں امریکہ 17 سالوں میں ایک کھرب ڈالرز جھونک کر بھی پنجے مظبوط نہیں کرسکا وہاں چین بیٹھ جایگا ۔افغانستان میں امن پاکستان میں امن کا ضامن ہوگا اور پاکستان میں امن اور سیاسی و معاشی استحکام ، سی پیک کی کامیابی کی ضمانت ۔
لہذا پاکستان پر طرح کا وار کیا جایگا ۔
بھارت کی جانب سے سرحدوں پر کشیدگی شروع کرادی گئی ہے تاکہ جوابی اقدامات کے لئیے فوجی بجٹ میں اضافہ ہو ۔ ساتھ ساتھ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پھر طالبان اور داعش کے سیکیورٹی فورسز پر حملے شروع کردئیے گئے ہیں ۔ دو تین روز پہلے دہشت گردوں کے ساتھ جھڑپ میں ایک کیپٹن سمیت 7 فوجی شہید ہوئے ہیں ۔ چترال اور اسکردو میں بھی اسکولوں کو جلانے اور دہشت گردی کی کوشسیں کر کے سی پیک سے منسلک اور قریب کے راستے میں امن و امان کو خراب کیا جارہاہے ۔ لیکن اب تک یہ گٹھ جوڑ منہ کی کھا رہا ہے ۔ اور پاکستان سی پیک کی شاہراہ پر نا صرف یہ کہ خود گامزن ہے بلکہ اوروں کو بھی شامل کر رہا ہے ۔
کیونکہ فرق یہ ہے ( اور یہی سب سے بڑا فرق ہے ) کہ بھٹو صاحب کے برخلاف اس دفعہ چین اور روس کے ساتھ پاکستان کی پیکج ڈیل ہوئی ہے ۔ بھٹو صاحب کے دور کے برعکس اس دفعہ ہماری ملٹری اور حکومت دونوں ہی چین روس اتحاد کا حصہ ہیں ۔ اب ہماری ملٹری بھی روس سے ملٹری افسران کی تربیت ، چین کے ساتھ جے ایف سیون تھنڈر طیاروں سے لیکر دیگر اسلحے کی تیاری کے ساتھ اسی ڈائریکشن میں چل رہی جس پر سی پیک کی صورت میں حکومت کی گاڑی چل رہی ہے ۔ لہذا اختلافات کی صورت بھی نہیں نکل رہی ۔
یہی وہ Mith ہے جو ہمارے دانشوڑوں کو سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے ملک کی موجودہ صورتحال کا بڑا سبب سول ملٹری ریلیشن شپ سے زیادہ زیادہ معاشی بلاکوں کے ساتھ جڑنے پر ہونے والا اختلاف ہے ۔ صرف پاکستان ہی نہیں اس ٹرانزیش سے گذر رہا یا تاریخ میں گذرتا رہا اور لڑکھڑاتا رہا ۔ باقی ممالک بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔
امریکہ کے مڈٹرم الیکشن ، بھارت اور افغانستان کے انتخابی نتائج ، شام کی صورتحال اور بالخصوص چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے منسلک بلاک سے منسلک ہونے والے یا منسلک ہو سکنے والے ممالک کے حالات پر چین امریکہ دونوں کی نظریں جمی ہوئی ہیں ۔ کیونکہ ان ممالک میں بننے والی حکومتیں ہی انکے معاشی عزائم میں دوست یا دشمن کا کردار ادا کرینگی ۔
لبڑلوں کی مطالعہ ہندوستان کا مسلہ یہ ہے کہ اس میں بھارت کے گندے انڈے بھی ہماری ٹوکری میں ڈال دئیے جاتے ہیں ۔ اس مطالعہ ہندوستانی تاریخ میں ہمیشہ یہ پٹی پڑھائی گئی کہ جب جب پاکستان اور ہندوستان قریب آتے ہیں کچھ معاملات کو بہتری کی جانب لے کر جانے کی کوشش کرتے ہیں تو اسی وقت ڈیپ اسٹیٹ کچھ نا کچھ ایسا کر جاتی ہے کہ دونوں ملک جنگ کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں اور مذاکرات کا عمل کچھ سالوں کے لئیے لپیٹ دیا جاتا ہے ۔
سب سے قریب ترین پٹھانکوٹ ائیر بیس ، اڑی میں بھارتی فوجی بیس پرحملہ ،اور سب سے بھیانک ممبئی حملہ اٹیک ۔ جس کا سارا کا سارا ملبہ پاکستان اور پاکستان کی ملٹری پر گرا اور بھارت آج تک اس حملے کا پھل کھا رہا ہے ۔اور پورے بھارت میں پٹاخہ پھوٹنے تک الزام بڑے آرام سے پاکستان کے سر ڈال دیتا ہے ۔ اور ہمارے ہاں مخصوص طبقے فورا ہاں میں ہاں ملانا شروع کر دیتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ادھر بھارت کے ہی سابق آئی جی پولیس اور جرمن صحافی ایلیاس ڈیوڈسن بھی ممبئی حملوں کو بھارت کا ہی کام قرار دیتے ہیں ۔
ایک منجن اور بھی بار بار بیچا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف کو ہندوستان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی پاداش میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا ۔ یعنی بھارت بے چارہ تو کھانے پہ بلاتا رہا اسٹیبلشمنٹ نامی ساس میاں صاحب کو جانے نہیں دیا اور جب جب میاں صاحب نے زیادہ زور لگایا تو انکی چھٹی کردی گئی ۔
لیکن پھر یہ اب کیا ہوگیا کہ سارا جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا ۔ یعنی میاں صاحب کو فارغ کرانے والی اسٹیبلشمنٹ انکے جانے کے بعد کیوں دوستی کی باتوں میں رکاوٹ نہیں ڈال رہی ۔ اسٹیبلشمنٹ کے لئیے تو آئیڈیل موسم ہے کہ وہ بھی تھوڑی گولہ باری کرکے انڈیا مخالف جذبات کو اور ہوا دلوائیں ۔ کیونکہ آفٹر آل لبڑلوں کا یہ بھی تو ماننا ہے نا کہ “وہ جی ، یہ کشمیر کا معاملہ یہ پاک بھارت ٹینشن یہ سب دونوں ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ کا مک مکا ہے ۔ کیونکہ ٹینشن ہوگی تو فوجی بجٹ کا جواز رہیگا “۔
تو بھائی اب کیوں ادھر ہمارے والی اسٹیبلشمنٹ اپنے بجٹ کو بچانے کے لئیے پھڈے کو نہیں بڑھاتی بلکہ حکومت کی مذاکرات کی بات کی بھی ہاں میں ہاں ہی ملا رہی ہے ۔ جبکہ ادھر بھارتی سرکار ہو یا اصلی تے وڈی ملٹری سرکار دونوں نے ہی عمران خان کے وزیر اعظم بنتے ہی خود پر چڑھایا ہوا بھیڑ کا نقاب اتار پھینکا ہے اور بھیڑیوں کی طرح غرا رہے ہیں ۔ کیوں ؟؟؟
ایسا لگ رہا جیسے بھارت میاں صاحب کے دور میں پاکستان کے ساتھ زیادہ کمفرٹ ایبل تھا اور اب عمران خان بھارت کو سمجھ میں نہیں آرہا ۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے لبڑلوں کے مطابق بھارت تو ہمیشہ دوستی کا خواہاں ہے تو اب اسے پاکستان سے دوستی کا ہاتھ ملانے میں کیا امر مانع ہے ۔ اب بھارت کے کونسے مفادات کو ٹھیس پہنچتی ہے جنکا پہلے ہماری طرف سے تحفظ کیا جاتا تھا ۔ کیا اس بات کا ڈر تھا کہ اب خارجہ محاذ پر بھی پاکستان گونگا نہیں بنا رہیگا ۔ اب اقوام متحدہ میں بھارتیوں کو ٹکا کر جواب ملینگے اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو منہ چھپاتے ہوئے واک آوٹ کرنا پڑھ جائیگا ۔
ایسا نہیں کہ ہماری طرف سب ہمیشہ ٹھیک ہی رہا ہوگا ۔ یہاں سے بھی ملک اور قوم کے مفاد کو تباہ کیا گیا ہے ۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ جس بھی فوجی آمر نے( چاہے ایوب خان ہو یا ضیاالحق یا مشرف ) ہمارے ملک کی تباہی میں اپنا ہاتھ ڈالا وہ اپنے اپنے وقتوں میں امریکہ کا لاڈلہ بنا رہا اور جس سیاستدان یا سیاسی جماعت نے امریکی بلاک اور اسکے تزویراتی و معاشی مقاصد میں ساتھ دیا ان سے بھی امریکہ کا یارانہ رہا ۔
اور جب جب سیاستدانوں اور عوام نے کبھی ملک کی گاڑی کو پٹری پہ لانے کی کوشش کی تو امریکی ڈیپ اسٹیٹ کے ہاتھ پاکستان میں جمہوریت سے آمریت اور جمہوریت سے آمریت برآمد کراکے اپنے ملک کو پھر سے پرانی پٹری پر ڈال کر تباہی کے ایک اور دلدل میں اتار دیتے ہیں ۔
نتیجہ یہ کہ ذولفقار علی بھٹو کے بعد سے امریکہ کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا سیاستدان نظر ہی نہیں آتا تھا ۔ اور موجودہ حالات میں راحیل شریف ، قمر جاوید باجوہ اور عمران خان سے پہلے امریکہ کو نو مور کہنے والا کوئی نظر نہیں آتا ۔
کیا خوب کہا تھا ہنری کسنجر نے کہ آپ امریکہ کے دشمن بن کرتو بچ سکتے ہیں ، لیکن دوست بن کر نہیں۔
اور بالکل درست کہا 6 ستمبر کی تقریب میں عمران خان نے کہ یہ سول ملٹری ریلیشن شپ ایک Mith ہے ۔ جب تمام ادارے ملک کے مفاد میں کام کرینگے تو کہاں کی سول ملٹری جنگ اور کاہے ہی سر پھٹول ۔
فرحان شبیر