😰فیس بک کی قبریں (مرزا یاسین بیگ)

رات کے تقریباً پونے گیارہ بج رہے ہیں . ٹورنٹو میں 5 جنوری ہے مگر کراچی میں 6 جنوری کی صبح ہے . میں مائنس 37 ڈگری سینٹی گریڈ میں اپنے دفتر کی جانب نائٹ ڈیوٹی نبھانے چلاجارہا ہوں . فون پر ایک بیپ سنائی دیتی ہے . پاکستان سے کسی دوست کا میسیج ہے “یاسین! ناصر رضا چل بسا” .
یہ کیا ہورہا ہے کل ہی زبیدہ آپا کے بچھڑنے کی اطلاع ملی , چند گھنٹوں کے وقفے سے ائیرمارشل اصغر خان اللہ کو پیارے ہوگئے , آج صبح پیارے شاعر رسا چغتائ کے ہمیشہ کیلئے روٹھ جانے کا غم ملا اور اب میرا صحافتی ہم سفر ناصر رضا بھی داغ ِمفارقت دےگیا .

ہم دونوں ایک دوسرے کو بےانتہا جانتے تھے مگر صرف قلم کے حوالے سے . ایک طویل ملازمتی سفر میں ہم نے کبھی ایک دوسرے سے یہ نہیں پوچھا کہ تم کون ہو؟ تمھارے کیا دکھ ہیں؟ تم کونسے رشتے نبھارہے ہو . یہاں سے نکلتے ہو تو کہاں جاتے ہو . بس اتنا پتہ تھا کہ اس کا تعلق حیدرآباد سے تھا . جب ہم صحافت میں اپنی جوانی لٹارہے تھے تب ضیاء کا اندھیرا ہر سُو چھایا ہوا تھا . (میں نے ضیاء کے طیارے کے پھٹنے کی خبر بھی دوشیزہ ڈائجسٹ کے دفتر میں سنی تھی) سوائے شوبز رسالوں کے اور کچھ نہ تھا . دو بڑے اردو اخبار تھے جنگ اور نوائے وقت اور دونوں میں گدھ بیٹھے تھے جو باہر سے کسی کو اندر آنے ہی نہیں دیتے تھے .
میں بی اے پھر ایم اے کرتے ہوئے ان شوبز رسالوں میں جاب کرتا اور فری لانس سینکڑوں مضامین لکھتا رہا . انھی پیسوں سے گذربسر تھی . میرے پاس ایک اضافی کام ریڈیو کے کمرشل پروگرامز لکھنااور کئ ریڈیو پروگرام باقاعدگی سے کرنا بھی تھا . اس لئے اچھی بھلی آمدنی ہوجاتی تھی . رسالوں کی پہلی نوکری “روپ” میں کی . پھر “دوشیزہ ڈائجسٹ” چلا آیا . یہیں ناصر رضا سے ملاقات ہوئ . پھر ہم دونوں خوب چھپنے لگے . دوشیزہ , صبح نو , ٹی وی ٹیمپو , ٹی وی ٹائمز , شوبزنس , شہرزاد , محور , نوائے ٹوکیو اس کے علاوہ بھی متعدد کراچی و لاہور سے نکلنے والے سوشو کلچرل رسالوں میں اور ناصر لکھتے چلےگئے . ہم دونوں کی ڈیمانڈ یکساں تھی . اس لئے سب جگہ سے پیسے ملتے اور ہم لکھتے رہتے . شوبز سیلیبریٹیز کے انٹرویوز , ٹی وی ڈراموں کی ریکارڈنگز کا آنکھوں دیکھا حال , ٹی وی ڈائری , چٹپٹے گوسپس, رنگیلے تیکھے مضامین , ان دنوں قوم کو اسی لت میں لگادیاگیا تھا . ڈائجسٹ پڑھو اور ٹی وی ڈراموں اور آرٹسٹوں میں کھوئے رہو .
ناصر , جہاں سے نکلتا مجھے جاب مل جاتی اور جس ادارے سے میں روٹھ جاتا وہاں کی کرسی پر ناصر رضا اپنا آدھا جسم باہر لٹکائے بیٹھا نظر آجاتا . وہ مرچ مصالحے والی گفتگو روانی سے کرنے کا عادی تھا . جب ملتا لکھے گئے آرٹیکلز پر گفتگو ہوتی . ان دنوں میں جس ٹی وی آرٹسٹ سے ملتا وہ ناصر رضا کا ذکر چھیڑدیتا . یہی بات ناصر مجھ سے کہتا تھا کہ یار کل شفیع محمد تیرا ذکر کررہا تھا . ہم دونوں کے سارے دوست ٹی وی ستارے تھے . وہ دوستی کب کرتا تھا , کیسے کرتا تھا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا . اسے میں نے لکھتے , گپیں مارتے , سڑک پر تیز تیز چلتے ضرور دیکھا مگر برسوں کے سفر میں کبھی کھاتے نہیں دیکھا . اتنا مہین کہ میں اسے ہڈی والا صحافی کہتا تھا . وہ لڑتا کیسے تھا یہ بھی کبھی معلوم نہ ہوسکا . اس کا روٹھنا بھی کبھی سامنے نہیں آیا . وہ بس باتونی تھا . بات ہی میں شکایت ڈھونڈ لیں , بات ہی میں دوستی بھانپ لیں اور بات ہی میں چھری کانٹے اور چمچے پالیں .
نعیم حبیب کو میں نے اس کی شاگردی میں دیکھا باقی سب کا وہ صرف صحافی دوست تھا . جس سے ملتا اس طرح ملتا جیسے وہی آخری محبت ہو . ٹی وی اداکاراؤں کا شیدائی تھا . اکثر فنکارائیں اس کی سہیلیاں تھیں . پتہ نہیں کس سے عشق کیا , کس سے نہیں کیا , کبھی کسی کیلئے آہ بھرتے نہیں دیکھی . ہم دونوں نے ان چند سالوں میں رسالوں کو جو کچھ دیا وہ ندرت اور انوکھےپن کی عجیب تحریریں تھیں . میں اور ناصر جس آرٹسٹ کا انٹرویو کرلیتے وہ ہمیں بھول نہیں پاتا . کراچی سے پشاور تک ہر ٹی وی سینٹرز کے مقبول آرٹسٹوں کو ہم نے “قلم زد” کیا . اس کا میرا ایک نادیدہ کمرشل قلمی مقابلہ رہتا تھا جسے بہت سے “ندیدہ نیت” سے دیکھتے اور پڑھتے رہتے تھے .
ناصر رضا عمر میں مجھ سے اچھا خاصا بڑا تھا مگر شادی اس نے میرے بہت بعد کی .جب تک میں کینیڈا آچکا تھا.
2010ء جب میں کراچی گیا تو اس نے فون کرکے کھانے کی دعوت دی اور بیگم و بیٹی سے ملوانے کی خواہش کا اظہار کیا مگر وقت کی کمی نے صرف ناصر رضا کی آواز سنوادی مگر ملنے نہ دیا .
یہ ایک عجیب واقعہ ہے کہ ہم صرف معاشی جدوجہد کے دوست تھے . مجھے کبھی اس کی شخصیت میں جھانکنے کا موقع نہ ملا اور نہ اسے کبھی میری شخصیت میں . ہم دونوں استعارہ ہیں اس صحافتی جدوجہد کا جو کبھی بہت سادہ , سچ اور قلم کی طاقت سے معمور ہوتی تھی . ہم دونوں محنت سے بندھے رہے . ایک دوسرے کی تحریروں کے مداح رہے . پروفیشنل مقابلے میں رہے مگر کبھی نہیں لڑے نہ روٹھے .
آج بھی میں دفتر ہی جارہا تھا کہ ناصر کی موت کی خبر اڑتی ہوئی پہنچ گئ . مجھے یقین ہے ناصر قبر میں بھی میز کرسی کا طلبگار ہوگا تاکہ کچھ لکھ سکے . اس نے اور میں نے بعد میں اور بہت سے کام بھی کئے . سنا ہے وہ ٹی وی ڈرامے لکھ رہا تھا . سنا ہے بیوی اور بچی سے بےحد محبت کرتا تھا . آج شفیع محمد , نور محمد لاشاری , محمود صدیقی , عشرت ہاشمی , امتیاز احمد , سلیم ناصر , خالدہ ریاست اور بہت سے اسے اپنے پاس پاکر خوش ہونگے . ناصر! ضرور بتانا کہ کسی نے میرا پوچھا کہ نہیں ؟
ہم دونوں ڈراموں کے درمیان خوش رہتے تھے اور آج اس کی آخری قسط ٹیلی کاسٹ ہوگئ .بچھڑنے کی ادا سوائے یادوں اور اداسی کے کچھ باقی نہیں چھوڑتی.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں