ویج بورڈ‌ قانون نظر انداز، صحافتی اداروں میں تھرڈ پارٹی سسٹم لاگو

تحریر و رپورٹ: محمد علی فاروق.

پاکستان میں صحافتی ادارے ویج بورڈ ایوارڈ نافذ نہیں کرتے مالکان کا صحافت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، میڈیا مالکان سسٹم لاگو کر کے صحافیوں کامزید استحصال کر نا چاہتے ہیں، نظریاتی صحافت اور مشن پس پشت چلا گیا صحافتی اداروں کی اولین ترجیح زیا دہ سے زیادہ منافع حاصل کر نارہ گیا اورزیادہ سے زیادہ مالی فوائد اکٹھا کرنے کو ہی اپنامقصد سمجھ بیٹھے ہیں صحافتی ادارے صحافیوں کو نیوز پیپرز ایمپلائز ایکٹ 1973کے تحت ویج بورڈ ایوارڈ سے بھی محروم کر رہے ہیں ٹھیکیداری نظام صحافتی اصولوں کی نفی اور صحافت کے تقدس کو پامال کرنا ہے ۔ اس معاملے میں ہر ادارے میں یکسانیت پائی جاتی ہے، تھرڈ پارٹی سسٹم صحافیوں کے بنیادی انسانی حقوق کے بھی خلاف ہے، ٹھیکیداری نظام ایک ظالمانہ نظام ہے اس سسٹم کے تحت اخبارات کے صحافی اس بد ترین ظلم کا شکار ہیں مالکان سسٹم کی وجہ سے عدالتی کاروائیوں سے براہ راست بچنے کا راستہ نکا لتے ہیں ، صحافتی ادارے دراصل مالکان کو تحفظ فراہم کرنے کا ذریعے ہیں قانون سازی کے ساتھ ساتھ سختی سے اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے، اخباری کارکنوں کوقانونی چارہ جوئی کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، پاکستان کے معروف کالم نگار، شاعر، دانشور، ڈرامہ نگار اور کئی کتابوں کے مصنف اوریا مقبول جان ،کراچی پریس کلب کے سابق صدر سنیئر صحافی احمدخان ملک ،کراچی پریس کلب کے سابق سیکٹری سنیئر صحافی مقصود احمد یوسفی اور کراچی یونیورسٹی شعبہ صحافت کے پروفیسر ڈاکٹر نوید اقبال انصاری نے سینیئر صحافی محمد علی فاروق سے خصوصی گفتگو میں کیا.

جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے کہا ہے کہ صحافتی ادارے اپنے بزنس کو بے تحاشہ وسعت دے رہے ہیں یہ ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکے ہیں دوسری طرف وہ اپنے ملازمین کو خاص طور پر صحافیوں کو نیوز پیپر ز ایمپلائز ایکٹ 1973کے تحت ویج بورڈ ایوارڈ دینا تھا اس سے بھی محروم کر رہے ہیں اس سلسلے میں تقریبا ہر ادارے میں یکسانیت پائی جاتی ہے ہم اس پر احتجاج کرتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ قانون شکنی بھی ہے اور آئینی لحاظ ٰ سے قابل گرفت عمل بھی ہے اخلاقی طور پر بھی اس میں بہت زیادہ سقم موجود ہیں ،اخباری مالکان کی جانب سے تھرڈ پارٹی سسٹم رائج کر نے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر لحاظ سے ٹھیکیداری نظام کو لانا چاہتے ہیں ٹھیکیداری نظام صحافت میں نہیں چلتا اور صحافتی اصولوں کی نفی ہے جبکہ صحافت کے تقدس کو پامال کرنا ہے صحافت سے وابستگی قومی ذمیداری ہے اس کا تقاضہ ہے کہ اس میں سیاست نہ کی جائے ۔

پاکستان کے معروف کالم نگار، شاعر، دانشور، ڈرامہ نگار اور کئی کتابوں کے مصنف اوریا مقبول جان نے کہا کہ صحافتی ادارے دراصل صحافتی ادارے ہی نہیں رہے گذشتہ 30سال سے مالکان کے کنٹرول میں ہیں اور مالکان کا صحافت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے بلکہ ان میں سے بے شمار مالکان ایسے ہیں جو نہ تو اپنا اخبار پڑتے ہوں گے اور نہ ہی ٹی وی دیکھتے ہیں جس مقصد کے لیے صحافتی ادارے بنائے گے ہیں وہ ان کے کاروبار کی انشورنس ہے ، انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ ان کے پاس اگر میڈیا ہاوس ہوگا تو اس میڈیا ہاوس کی وجہ سے کسی بھی طور پر ان پر ہاتھ ڈالنا مشکل ہوجائے گا ،لیکن ان سب کے باوجود جب رجیم چینج کے بعد ان ساروں کو بلایا گیا اور تین منٹ کی بریفنگ میں کہا گیا کہ تمہیں یہ کرنا ہے تو سب نے سر تسلیم خم کر دیا ،ان میں سے کوئی بھی بات نہ کر سکا ، بنیادی طور پر میڈیا مالکان سسٹم کو اس ہی لیے لاگو کرنا چاہتے ہیں کہ اس کو مینج کر کے صحافیوں کامزید استحصال کر سکیں ،دراصل پیچھے رہنے اور سامنے آنے والے شخص کے معاوضے میں کسی بھی طرح فرق نہیں ہونا چاہئے جیسے اینکر پرسن اگر لاکھوں لیتا ہے تو اس کا پرویوڈیوسر، ریسرچر، ایڈیٹر، رپورٹر، کیمرہ مین اور دوسرے لوگوں ہوں سب کی تنخواہیں بھی اسی حساب سے ہونی چاہیں، کسی کارپوریٹس ادارے میں چلیں جائیں ان کے منیجر کی تنخواہ کے حساب سے اس کے ڈرائیور کی تنخواہ بھی کم نہیں ہوتی اور وہ کسی بھی لحاظ سے عام سر کاری ملازمین کی تنخواہوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے ۔

کراچی پریس کلب کے سابق صدر احمد خان ملک نے کہا کہ یہ بہت افسوسناک صورتحال ہے پاکستان میں صحافتی ادارے ویج بورڈ ایوارڈ نافذ نہیں کرتے بلکہ ان کے ہاں اس کے متبادل کوئی مناسب اسٹریکچر بھی نہیں ہے، دو تین بڑے اداروں کے علاوہ کہیں بھی ویج بورڈ ایوارڈ نافذ نہیں کیا جاتا ،جس کی وجہ سے ملازمین مالی مشکلات کا شکار رہتے ہیں،دوسری جانب نہ صرف صحافتی اداروں میں بلکہ تمام کارپوریٹس سیکٹر میں تھرڈ پارٹی سسٹم رائج ہورہا ہے اکثر جگہ یہ نافذ بھی ہے جس میں ملازمین کو تھرڈ پارٹی کے ذریعے ملازمت فراہم کی جاتی ہے ، اس سسٹم کی وجہ سے ملازمت کو نہ تو تحفظ فراہم ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں دیگر مراعات دی جاتی ہیں نہ ہی ان کے ویج کا کوئی متبادل نظام ہوتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر ایسی قانون سازی کی جائے کہ کم از کم صحافتی اداروں میں کام کرنے والے صحافی اور میڈیا ورکرز کی ملازمتوں کو تحفظ فراہم ہواور ان کے ویج کا نظام واضح ہو ، ورکنگ جرنلیسٹ کو فوری ویج بورڈ ایوارڈ فراہم کیا جائے، اس کے ساتھ ان کی ای او آئی بی میں رجسٹریشن ہو، تاکہ جب ان کی عمر 60سال پر پہنچے تو انہیں پینشن مل سکے جو بڑھاپے میں ان کے تھوڑے بہت اخراجات پورے کرنے کے کام آسکے یہ تمام صورت حال قانون سازی کے ذریعے ہی بہتر بنائی جاسکتی ہے ۔

کراچی پریس کلب کے سابق سیکریٹری سنیئر صحافی مقصود احمد یوسفی نے کہا کہ اس سوال کا جواب تو ادارے یا اداروں کے مالکان دے سکتے ہیں، سیدھی بات یہ ہے کہ اگر کسی قانون یا ضابطہ پر عمل نا ہو رہا ہو تو متاثرہ فریق اس پر عملدرآمد کے لئے رجوع کرتا ہے اس میں جو عمل نہیں کر رہا ہوتا وہ جواب دیتا ہے اور جواب قابل قبول نا ہو تو پھر اسے قانون پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ویج بورڈ ایوارڈ کو نظر انداز کون کررہاہے اور نظر انداز کیے جانے کے خلاف کیا اخباری کارکنوں کی طرف سے کوئی قانونی چارہ جوئی کی گئی ہے ۔

کراچی یونیورسٹی شعبہ صحافت کے پروفیسر ڈاکٹر نوید اقبال انصاری نے کہا کہ درحقیقت صحافت پاکستان بنے سے پہلے ایک مشن تھا صحافتی ادارے بھی نظریاتی صحافت کو اپنی اولین ترجیح سمجھتے تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد اصل نظریاتی صحافت اور مشن پس پشت چلا گیا اور صحافتی اداروں کی اولین ترجیح زیا دہ سے زیادہ منافع حاصل کر نارہ گیا ، چنانچہ وقت کے ساتھ ساتھ صحافتی اداروں میں کام کرنے والے صحافیوں کو ان کے جائز حقوق اور جائز مراعات کو حاصل کرنے میں دشواریاں پیش آنے لگیں ، یہی وجہ تھی کہ پاکستان میں 1960میں صحافیوں کے لیے پہلا ویج بورڈ قائم کرنا پڑا اس بورڈ نے فیصلہ کیا تھا کہ ہر 5سال کے بعد مہنگائی کو دیکھتے ہوئے صحافیوں کی اجرت کا جائزہ لیا جائے گا ، اسی طرح نیوز پیپر ایمپلائز ایکٹ 1973میں دوسرے ویج بورڈ کے تحت صحافتی اداروں کو پابند کیاگیا ۔ وہ صحافیوں کی اجرت، تحفظ اور میڈکل کی سہولیات فراہم کریں ،یہ ایک صحافیوں کے حقوق کی ضمانت دینا ہے کیونکہ صحافتی ادارے زیادہ سے زیادہ مالی فوائد اکٹھا کرنے کو ہی اپنامقصد سمجھ بیٹھے ہیں وہ اس ایکٹ پر عملدآمد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ ویج بورڈ کے خلاف عدالت پہنچ گئے اور ویج بورڈ کے خلاف حکم امنتاع حاصل کرلیا بلکہ ایک نئی حکمت عملی کے تحت مالکان نے مشترکہ گٹھ جوڑ کر کے تحت تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ سسٹم کو متعارف کروا دیا، اسی سسٹم کے تحت ملازمت کے لیٹر دیئے جاتے ہیں تاکہ اس سسٹم کے تحت ملازمت حاصل کرنے والے صحافی کو کم تنخواہی دی جائے اور دیگر جائز مراعات کو بھی روکا جائے ، جبکہ عدالتی کاروائیوں سے بھی براہ راست بچنے کا راستہ نکا لا جاسکے، تھرڈ پارٹی سسٹم یا ٹھیکیداری نظام ایک ظالمانہ نظام ہے اس سسٹم کے تحت اخبارات کے صحافی اس بد ترین ظلم کا شکار ہیں کہ وہ اپنی آواز بھی نہیں اٹھا سکتے ، صحافیوں کا شمار ملک کے متوسط طبقے سے ہوتا ہے ،صحافتی ادارے اور مالکان کی بنا ئی ہوئی تنظیمیں عدالتوں میں بھی غلط حقائق اعداد شمار پیش کر تی ہیں یہ صحافیوں کے بنیادی انسانی حقوق کے بھی خلاف ہے سرکاری محکموں کے لیے چپڑاسی اور کلرک کو تنخواہوں کے علاوہ میڈیکل و دیگر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، ملک میں اگست 2021 میں آٹھویں ویج بورڈ کا اعلان کیا گیا جس کے تحت صحافیوں کی موجودہ تنخواہوں میں 145فیصد کا اضافہ ہونا چاہئے تھا صحافی اس اضافے سے محروم ہیں بلکہ ایک طویل عرصے سے مالکان کے جبری ملازمت سے برخاست کئے جانے کا بھی سامنا کر رہے ہیں ، اعلی عدلیہ اور وفاق کو اس گھمبیر صورت حال میں سو موٹو ایکشن لیتے ہوئے صحافیوں کے مسائل کو ترجیح بنیادوں پر حل کروانے کے لیے قانون سازی کے ساتھ ساتھ سختی سے اس پر عملدرآمد بھی کروانا چاہیے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

ویج بورڈ‌ قانون نظر انداز، صحافتی اداروں میں تھرڈ پارٹی سسٹم لاگو” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں