پلواما واقعے کے بعد بھارت کی بدحواسیوں نے خطے کو نئی کشیدگی سے دوچار کردیا ہے۔ زرائع بتاتے ہیں کہ بھارت نے پاکستان کو دو راستوں سے نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔پہلا اور سب سے خطرناک راستہ جو اس نے اپنایا ہے وہ افغانستان کے ساتھ ملکر پاکستان پر فوج کشی کا راستہ ہے۔اس مقصد کیلئے بھارتی خفیہ ایجنسی را ، افغان ایجنسی این ڈی ایس سے مسلسل رابطے میں ہے اور ایسے کسی منصوبے پر کام کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں بھارت کے بالاکوٹ حملے کی خفت اور فضائی جھڑپ میں اپنےدو طیارے گروانے کی ذلت کو مٹایا جاسکے۔یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بھارت اور افغانستان ملکر پاکستان پر زمینی حملے کی غلطی نہیں کرنے جارہے، تاہم ایسے گیم پلان پر کام ضرور ہورہا ہے،جس کے نتیجے میں کوئی ایسا آپریشن عمل میں لایا جائے جس سے بھارتی فوج اور فضائیہ کی واہ واہ ہوجائے اور ساتھ ہی الیکشن سے پہلے بھارتی عوام کا مورال بھی کچھ بہتر ہوجائے۔لیکن ابھی تک پاکستان کی انٹلی جنس اور فوج کی چوکسی کی وجہ سے بھارت کے یہ ارادے ناکام ہوتے نظر آرہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اسی خطرے کی جانب باقاعدہ اشارہ کیا تھا، اور اس خطرے سے پاکستانی عوام اور دنیا کو آگاہ کرنے کیلئے خصوصی ہنگامی پریس کانفرنس بھی کی تھی۔اس پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ ’’ بھارت پاکستان کے خلاف کسی نئی کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور انٹلی جنس اطلاعات ملی ہیں کہ بھارت 16 سے 20 اپریل کے درمیان کوئی جارحانہ کارروائی کر سکتا ہے۔، بین الاقوامی برادری بھارت کے ان ارادوں کا نوٹس لے اور بھارت کو ایسی کسی حرکت سے روکے‘‘۔ شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ ’’مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ جیسا کوئی اور واقعہ ہو سکتا ہے جس کو جواز بنا کر بھارت پاکستان کے خلاف کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہا ہے،چنانچہ انہوں نے پاکستان میں غیرملکی سفیروں کو بتادیا ہے کہ خود بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق بھارت کی ‘کیبنٹ کمیٹی آن سکیورٹی’ میں وہاں کی تینوں مسلح افواج کے سربراہان نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کارروائی کے لیے تیار ہیں اور بھارتی حکومت نے انہیں اجازت دے دی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس خبر کی بھارت کی طرف سے کوئی تردید بھی نہیں کی گئی جس پر پاکستان کو تشویش ہے ‘‘۔
پاکستان کو نشانہ بنانے کیلئے بھارت نے جو دوسرا راستہ اپنایا ہے وہ پاکستان میں دہشت گردی کی لہر تیز کرنے کا راستہ ہے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ پلواما واقعے،جس پر بھارت نے شور مچا مچا کر آسمان پر پر اٹھا لیا ہے،کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے ایک دو نہیں، سات واقعات ہوچکے ہیں،جن میں دو ٹرینوں پر حملے، کراچی میں مفتی تقی پر حملہ ، زیارت میں لیویز پر حملہ ، کئی دیگر کاررائیاں اور پھر اس کے بعد کوئٹہ کی سبزی منڈی میں خودکش حملہ شامل ہے۔ان میں سے ذیادہ تر وارداتوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے،جس کے ٹھکانے افغانستان کے کئی علاقوں میں قائم ہیں۔زرائع بتاتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کی لہر تیز کرنے کیلئے بھارت نے حالیہ دنوں میں این ڈی ایس سے خصوصی رابطے کئے ہیں۔جس کے بعد بلوچستان خصوصاً کوئٹہ میں دہشت گردی کی مسلسل وارداتوں کا منصوبہ بنایا گیا ہے،جبکہ پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی دہشت گردی کرانے کیلئے استعداد بڑھانے پر کام کیا جارہا ہے۔کیونکہ آپریشن ضرب عضب کے بعد ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی کرنے کی دہشت گردوں کی صلاحیت محدود ترین ہوگئی ہے اور دہشت گردوں کو ٹھکانے افغانستان منتقلی کے بعد نئے کارکن بھرتی کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کی لہر کو بڑھاوا دینے کیلئے را کی جانب سے خصوصی بجٹ بھی مختص کیا گیا ہے۔جس کے بعدافغانستان کے صوبوں کنڑ اور نورستان میں دہشت گردوں کی نئی سرگرمیاں رپورٹ کی جارہی ہیں۔
اس صورتحال میں سرحدوں پر چوکسی قائم رکھنا اپنی جگہ اہم ہے۔لیکن ساتھ ہی بھرپور سفارتکاری اور میڈیا محاذ پر کارکردگی بھی دکھانے کی ضرورت ہے،دیکھا یہ جاتا ہے کہ پاکستان سفارتی محاذ پر بھارت کو اس انداز سے جواب نہیں دے پاتا جس انداز سے بھارت سفارتی محاذ بلکہ میڈیا اور سوشل میڈیا کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے۔مثال کے طور پر پلواما حملے کے فوری بعد بھارت کی جانب سے پاکستان کا نام لیکر حملے کا ذمہ دار قرار دیا جانے لگا تھا۔ بھارتی حکومت ، فوج میڈیا اور سیاستدان ،سب پاکستان کوحملے کا ذمہ دار قرار دے کر زہر اگل رہے تھے۔خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بنا کسی تحقیقات پلواما واقعے کا الزام پاکستان پر لگا کر جواب دینے کی دھمکی بھی دے دی تھی۔اس وقت بھارتی میڈیا پربھی جیسے جنگی جنون سوار تھا اور پاکستان کو نشان عبرت بنانے کی باتیں کی جارہی تھیں،بھارتی نیوز چینل اور تجزیہ کار عوام کو اشتعال دلا رہے تھے، جس کے بعد بی جے پی اور دیگر انتہا پسند جماعتوں کے ارکان پاکستان سے بدلہ لینے کیلئے اپنی سرکار پر دباؤ بڑھانے لگے تھے۔ساتھ ہی بھارتی حکومت بغیر کسی ثبوت کے یہ معاملہ مختلف ممالک اور اداروں کے سامنے پاکستان کی کردار کشی اور حملے کا جواز بنانے کیلئے بھی اٹھا رہی تھی۔اس طرح کا سخت موقف اور جنگی جنون پیدا کرنا بھارت کی ایسی حکمت عملی ہے جو پاکستان کی حکومتوں کو ہمیشہ دباؤ میں لیتی آئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پلواما حملے کے اگلے ہی روز پاکستان حکومت کا رویہ معذرت خواہانہ ہوگیا تھا،جبکہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جھوٹا الزام لگانے پر بھارت کو مکمل طور پر آڑے ہاتھوں لیا جاتا۔
یہ ہماری حکومتوں کا معذرت خواہانہ انداز ہی ہے جس کی بنا پر ہم پاکستان میں بھارتی دہشت گردی کو دنیا میں بے نقاب کرنے کا موقع ایک بار پھر گنوا چکے ہیں۔کوئٹہ میں ہوئے حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی۔حملے کی ہدایت افغان سرزمین سے جاری ہوئی،یہ بھی واضح ہے کہ دہشت گردوںکو مدد اور گرین سگنل بھارت اور افغانستان سے ملا،تاہم مجال ہے کہ کوئٹہ حملے پر بھارت کو زرا بھی لتاڑا گیا ہو،اس طرح ایک دو روز میں یہ معاملہ بھی ہمیشہ کی طرح ٹھنڈا ہوجائےگا۔بھارت یوں تو عسکری محاذ پر پاکستان سے شکست سے دوچار ہےلیکن جارحانہ موقف اپنانے کے معاملے میں اس نے پاکستان کو یقیناً بہت پیچھے چھوڑا ہوا ہے۔
http://e.juraat.com/khi/2019/04/15/News/(77).html