Warning: mysqli_query(): (HY000/1194): Table 'wp_upviews' is marked as crashed and should be repaired in /home/kehdopak/public_html/wp-includes/class-wpdb.php on line 2351

Warning: mysqli_query(): (HY000/1194): Table 'wp_upviews' is marked as crashed and should be repaired in /home/kehdopak/public_html/wp-includes/class-wpdb.php on line 2351

پاکستان کی عدالتی تاریخ بدل گئی، پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست

سپریم کورٹ آف پاکستان میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار فل کورٹ براہِ راست سماعت جاری ہے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ مارشل لاء دور کے عدالتی فیصلوں کا میں تو پابند نہیں، کوئی اور ہو تو ہو۔سپریم کورٹ کے تمام 15 ججز پر مشتمل فل کورٹ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت کر رہا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے پہلے کیس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ تاخیر کے لیے معذرت چاہتا ہوں، فل کورٹ اجلاس چل رہا تھا، جس میں فیصلہ کیا ہے کہ سرکاری ٹی وی پر مقدمہ لائیو نشر کرنے کا پائلٹ تجربہ کیا جائے، ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو براہِ راست نشریات کے ممکن یا ناممکن ہونے کا جائزہ لے گی، ہم میں سے بینچ کے کچھ ممبران کیس پہلے سن چکے ہیں، کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے یہ معاملہ سنا ہی نہیں۔اس موقع پر عدالتِ عظمی نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواستیں قابل سماعت قرار دے دیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 9 درخواستیں ہیں اور وکلاء کون کون ہیں؟ خواجہ طارق رحیم صاحب! آپ دلائل کا آغاز کریں، دلائل دوبارہ سے شروع ہوں گے کیونکہ نیا بینچ تشکیل دیا گیا ہے، فل کورٹ بنانے کی 3 درخواستیں تھیں جن کو منظور کر رہے ہیں، فل کورٹ اجلاس میں فل کورٹ سماعت کرنے کی منظوری دی گئی، عوام ہم سے 57 ہزار کیسز کا فیصلہ چاہتے ہیں، خواجہ صاحب! ہم آپ کو نہیں کہتے کہ کم بولیں مگر آپ بات کو جامع رکھیں، ماضی کو بھول جائیں، ابھی کی بات کریں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ سیکشن 5 کا کیا ہو گا؟ کیا ایک پارٹی کی وجہ سے ایکسر سائز نہیں ہو گی؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خواجہ طارق رحیم سے کہا کہ ہم شروع کرتے ہیں، ایکٹ پڑھا جائے۔وکیل خواجہ طارق رحیم نے ماضی کے حوالے سے دلائل جاری رکھے۔جس پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے کہا کہ خواجہ صاحب! یہ عوامی وقت ہے، ایسے نہ کریں اور ایکٹ پڑھیں، سیکشن 2 میں مت جائیں اور پورا ایکٹ پڑھیں، وہ الفاظ مت بولیں جو ایکٹ میں موجود نہیں۔

جسٹس سردارطارق نے کہا کہ خواجہ صاحب! مہربانی کر کے قانون پڑھ لیں۔جسٹس اطہر من اللّٰہ نے درخواست گزار کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ قانونی نکات کی طرف آئیں۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خواجہ صاحب! اپنے دلائل مرتب کریں، ہر سوال کا جواب فوری مت دیں، اپنے معاون کو کہیں عدالت کے سوالات نوٹ کر لے، جب سوالات سمجھ لیں تو ایک ہی بار جواب دیجیے گا۔وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ پارلیمنٹ نے 3 ججز کی کمیٹی بنا کر عوامی مقدمات کے فیصلے کی قانون سازی کی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آئین کا آرٹیکل 191 کیا کہتا ہے؟وکیل خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ آرٹیکل 70 سے شروع کر کے تمام متعلقہ آئینی شقیں سامنے رکھوں گا، آئین پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولز بنا رکھے تھے، پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں