علامہ اقبال اورفلسطین

تحریر: عظمیٰ نسیم احمد۔

یوم اقبال کی عام تعطیل کے تذکرے تو ہر جگہ ہیں شاید زمانہء حال میں کسی نامور شخصیت کے نام پر تعطیل کا مقصد اس شخصیت میں چار چاند لگانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے کہ غالبا شخصیت اپنا کام ادھورا چھوڑ گئی ہے اب قوم چھٹی منا کے اس ادھورے کام کو مکمل کرے گی ‘ بزرگ سارا دن ٹی وی پروگرام دیکھ کر اور نوجوان آدھا دن سونے کے بعد انسٹا گرام ‘ فیس بک ‘ ایکس وغیرہ پر پوسٹس لگا کر ۔ ایک زخمی سی مسکراہٹ بھی سچی ہنسی نہ دے سکی ‘ علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی نظم “حال و مقام ” کے اشعار ذہن میں شور مچانے لگے۔

دل زندہ و بیدار اگر ہو تو بتدریج
بندے کو عطا کرتے ہیں چشم نگراں اور

احوال و مقامات پر موقوف ہے سب کچھ
ہر لحظہ ہے سالک کا زماں اور مکاں اور

آج اقبال ہم میں موجود ہوتے تو موجودہ اُمت مسلمہ کے حالات دیکھ کر انہیں محسوس ہوتا کہ جیسے وہ ایک ’’ صُمُّۢ بُكۡمٌ عُمۡي ‘‘ ہجوم میں موجود ہیں۔ جس طرح کی بے حسی، خودغرضی آج ہمارے خواص و عوام میں کسی وائرس کی طرح گھر کر چکی ہے اس کا علاج اب کوئی آسمانی ہرکارہ اچانک کسی چیرے کےذریعے ہی کر سکتا ہے۔ آج جو قتل و غارت گری، نسل کشی پیغمبروں کی سرزمین پر برپا ہے اور جسے اہل یہود روز بروز دوسرے اسلامی ممالک تک پھیلانے کے در پے ہے چاہے یمن ہو لبنان ہو یا فارس، اس سے لگتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو دیوار سے لگا کر غلام بنانے کی تیاری مکمل کر چکے اور یہاں یہ عالم ہے کہ تفرقہ بازی، ذاتی مفادات، جہا د کو لارنس آف عربیہ کی تعلیمات کی طرح غیر ضروری قرار دیا جا رہا ہے۔

نو نومبر کی عام تعطیل کا اعلان کرتے ہوئے ہمارے اہل اداروں کو کبھی یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ یہ وہی علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ ہیں کہ حالت بیماری میں قائد اعظم محمد علی جناح کو خط لکھتے ہیں ” ’فلسطین کا مسئلہ مسلمانوں کے ذہنوں کو بہت پریشان کر رہا ہے مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ لیگ اس مسئلے پر ایک ٹھوس قرارداد منظور کرے گی اور قائدین کی ایک نجی کانفرنس کا انعقاد کرکے کسی ایسے مثبت قدام کا فیصلہ کرے گی جس میں عوام بڑی تعداد میں شریک ہوسکیں۔ اس طرح لیگ بھی مقبول ہوگی اور فلسطینی عربوں کی مدد بھی ہوسکے گی۔ ذاتی طور پر مجھے کسی ایسے معاملے پر جیل جانے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا جس سے اسلام اور ہندوستان دونوں متاثر ہوں”

اس وقت وہ بیمار تھے لیکن فلسطین کے لئے ان کے جذبات کا یہ عالم تھا۔ اور اس سے کئی سال پہلے کہ جب ابھی یورپ دنیا بھر کے صیہونیوں کو فلسطین میں زمینیں فروخت کر کے آباد کر رہا تھا اسی وقت سے علامہ اقبال کو صیہونیت کی دجالیت کا اندازہ ہو گیا تھا، جس کے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے وہ لندن میں منعقد ہونے والی کانفرنس جو ہندوستان کی آزادی کے لئے اصلاحات کی وجہ سے رکھی گئی تھی اسے چھوڑ کے موتمرالعالم الاسلامی کی کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن سے یروشلم پہنچ گئے کیونکہ ان کے لئے بیت المقدس اور امت مسلمہ کا مفاد و اتحاد زیادہ اہم تھا۔

آج جس طرح ارض مقدس کے فلسطینی معصوم بچے دو ارب مسلمانوں کی موجودگی میں تنہا اپنی زمین کی اور اسلام کی بقا کی لڑائی لڑ رہے ہیں اپنی جانیں بھوک پیاس کے ساتھ صیہونیت کے ہاتھوں گنوا رہے ہیں کیا کل ہم سے اس کا سوال نہ ہوگا، کیا ہم انہیں تنہا کر کے آج اپنی پناگاہوں میں خود کو محفوظ سمجھ کر خود کو دھوکہ نہیں دے رہے یہاں تک کہ اکثر اسلامی ممالک کا حال یہ ہے کہ ” ان تازہ خداووں میں، سب سے بڑا وطن ہے ” اور حکمران طبقہ ہو یا عسکری قیادت یا پھر مساجد سے پیغامات نشر کرتے لاوڈ اسپیکر سب کا احوال نظم کے آخری اشعار کے مطابق ہیں۔

الفاظ و معنی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کر گس کا جہاں اور ہے شاہیں کی اذاں اور

دعا ہے کہ ہمارے اہل ادارے اور نوجوان قرآن سے رہنمائی لیتے ہوئے اقبال کے شاہین ثابت ہوں کیونکہ ایسا صرف مشکل ہے نا ممکن نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں