ایک آگ کا دریا ہے اور کود کر جانا اور آنا ہے ۔ جی ہاں کچھ ایسے ہی دل گردے کا کام ہے کراچی میں بے ہنگم اور طوفان بدتمیزی والے ٹریفک سے نکل کر منزل مقصود تک پہنچنا ۔اب یہ اور بات ہے کہ اس ’ مہم جوئی ‘ میں نجانے کتنی بیماریاں دامن گیر ہوجاتی ہیں ۔ اچھلتی کودتی چیختی چنگاڑتی گاڑیاں ، بسیں اور موٹر بائیکس اور ان کے درمیان زندہ سلامت رہتے ہوئے خود اوراپنی سواری کو نکال لینا بالکل ایسا ہی ہے ، جیسے کسی زمانے میں ویسٹ انڈین فاسٹ بالرز کی بالنگ پر بیٹنگ کرنا ۔۔۔ جو گاڑیاں چلا رہے ہیں ان کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کو دوسروں کی کیا اپنی جان کی بھی رتی برابر فکر نہیں۔بلکہ وہ تو اقبال کے اس شعر کا حق ادا کرتے ہیں کہ
تندہی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
اب اقبال کے یہ ’ عقاب ‘ اور اونچا اڑنے کے لیے سر دھڑ اور اپنی سواری کی ساری بازی لگادیتے ہیں ۔ یقین نہ ہو تو کسی دن سڑک کنارے بس کرسی ڈال کر بیٹھ جائیں پھر دیکھیں ’ عقابوں ‘ کے کمال ۔فارمولا ون میں بھی کیا ڈرائیور ہوتے ہوں گے جو ہمارے کراچی کے شہ سوار ، میدان جنگ میںگرے بنا فتح کے جھنڈے گاڑنے کے لیے بس آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ سگنل سے پہلے ایکسیلٹر پر ’ بھوں بھوں ‘ کی آواز گویا اس جانب اشارہ ہوتا ہے کہ سیٹی بجنے کا انتظارہے ، پھر سب کی سٹی گم کرکے رکھ دیں گے ۔گویا
نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں
عجب سفر ہے کہ بس ہم سفر کو دیکھتے ہیں
اگر کہیں کسی سگنل پر ٹریفک اہلکار کھڑا نہ ہو اور آپ رُک جائیں تو پیچھے والا سوارکے ہارن کی گونج آپ کے ’ قانون پسند ‘ ہونے کی بھپتی اڑا تی ہے ۔ ویسے ہارن تو اس وقت بھی ’ کورس کی شکل ‘ میں خوب بجتا ہے ، جب خدا نہ کرے آپ کی گاڑی بیچ منجدھار میں ’ داغ مفارقت ‘ دے جائے ۔اب کوئی کسی سے کیا بولے کہ بھئی شوق میں تو گاڑی بند نہیں کی لیکن لیکن کہاں کوئی آپ کی پریشانی ، دشواری یا مجبوری کا کوئی مان رکھے ۔ عجیب و غریب انداز کے ہارن ایسے بجتے ہیں کہ آپ خود کومجرم خیال کرنے لگتے ہیں ۔اور دوسرے آپ کو ہارن ہی نہیں غضب ناک آنکھوں سے ایسے دیکھتے ہیں کہ جیسے آپ نے ترقی کی بھاگتی دوڑتی شاہراہ پر ان کے آگے ’ فل اسٹاپ ‘ لگا دیا ہو ۔۔ ایک تو بھلا ہو ان چینی بھائیوں کا جنہوں نے اپنے ماموں ، خالہ ، بھائیوں بھانجوں کے نام پر نجانے کن کن نام سے موٹر بائیکس متعارف کرادیں۔جو پہلے سائیکلوں پر گھوما کرتے تھے ۔ وہ ’پاک چین دوستی زندہ باد ‘ کی مثال کو حقیقت کا روپ د ے کر وہاں کی موٹر بائیکس پر فر فر کرتے ادھر سے ادھر فراٹے بھرتے ہیں۔ ۔ ہمارا اپنا خیال ہے کہ جتنے شارٹ کٹ ، ان بائیکس والوں کے علم میں ہیں ، ممکن ہے کہ کراچی کی آباد کاری کرنے والوں کو بھی ان کا پتا نہ ہو ۔ ڈر تو یہی ہے کہ روز محشر کے دن بھی یہ ’ شارٹ کٹ ‘ کا استعمال کرتے ہوئے فرشتوں کو بھی کہیں ’ ڈاج ‘ نہ دے جائیں۔ فٹ پاتھ ہوں یا پھر پتلی پتلی سی راہ گزر ، ان پر سے کیسے اپنے لیے راستہ نکالنا ہے، اس فن میں صرف یہی مشاق ہیں ۔ ۔پھر اسی طرح انہی ’ شارٹ کٹ ‘ کی کھوج میں ایک کے بعد ایک موٹر سائیکل سوار ایک دوسرے کے پیچھے ہولیتا ہے ۔اور جو اس دوڑ میں مقدر کا سکندر بنا ہوتا ہے وہ خود کو ’ بیگ پائیپر ‘ تصور کیے ہوتا ہے ۔ اور ممکن ہے وہ یہ بھی گنگناتا ہو
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
بیک مرر‘ کا استعمال ’ عشق ممنوع ‘ ہے چاہے وہ گاڑی ہو ، رکشہ ہو ، بس یا پھر موٹر سائیکل ، بلکہ اب تو کسی بائیک پر یہ پائے جائیں تو عجیب عجیب سا لگتا ہے ۔ کہیں ’اتحاد بین المسلمین ‘ کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہے تو موٹر بائیکس سوار کے ساتھ پیش آنے والے حادثے کے موقع پر دیکھیں۔ ’ خدائی خدمت گار‘ بن کر بائیک سر راہ روک کر وہ بھائی چارہ دکھاتے ہیں کہ یقین ہوجاتا ہے کہ ہیں جہاں میں کچھ لوگ اب بھی اچھے ، ایسی صورتحال میں ٹریفک جام ہوجاتا ہے تو ہو کسی کو اس کی فکر نہیں اور آ پ کھسکتے رگڑتے ہوئے آگے بڑھیں تو کچھ افراد کا جم غفیرآپ کا استقبال کرتا ہے ۔ اب کوئی ’ خبری سوار ‘جب راہ گیر سے دریافت کرلے کہ بھائی ہوا کیا ہے ؟ تو کندھے اچکا کر جواب یہی ملتا ہے کہ پتا نہیں۔ تلمائے بغیر نہیں رہ پاتے کہ اتنی دیر سے ’ اسٹریٹ تھیٹر ‘ کا حصہ بننے والا یہ کیسا تماشائی ہے ، جسے یہ معلوم نہیں کہ کون کس روپ میں زندگی کے اس تھیٹر میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے ۔
کبھی کبھار ہمارے ذہن میں ایک اور سوال بہت کلبلاتا ہے کہ وہ کون ’ نامعلوم افراد ‘ ہیں ، جو اچھے خاصے اسپیڈ بریکر میں بائیک کے لیے’ نجات کاراستہ ‘ کیسے اور کب نکال دیتے ہیں ۔ ۔ اسی طرح بائیک سواروں کے ’آئین ‘ کے رہنما اصولوں میں باجی دوپٹہ اوپر کرلیں، لائٹ جل رہی ہے ، اسٹینڈ اٹھا لیں جیسی صدائیں دلوں پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ حال برا تو رکشہ چلانے والوں کا بھی کچھ کم نہیں ، جو چن چی نامی ڈائنوسارز میں ایک دنیا آباد کرتے ہوئے نکل پڑتے ہیں ۔موت کا فرشتہ بن کر ’سواری ‘ کو اٹھاتے اور اتراتے ہیں ۔ ۔۔ منی بس یا کوچ والے تو اتنے ظالم اور بے رحم ہوتے ہیں کہ عمر رسیدہ افراد کی سواری محض اس خیال سے نہیں اٹھاتے کہ اترنے چڑھنے میںیہ وقت بہت لیں گے ۔ اس ’ حمام ‘ میں صرف موٹر بائیکس ، منی بس ، رکشہ یا کوچز والے ہی نہیں گاڑی والے بھی اپنی کرامات دکھاتے رہتے ہیں ، رانگ سائیڈ پر آنا ان کا بھی محبوب مشعلہ ہے ، اسی طرح بلا ضرورت اور بلا جوا ز ’ ڈپر ‘ مار کر راستہ مانگنا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ اور نہ دو تو ’ اور ٹیک ‘ کرکے جب آپ کے برابر سے گزرتے ہیں کہ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایسے گھورتے ہوئے جاتے ہیں کہ خوف ہی آجائے ۔ اور بعض کی رات میں ’ ہیڈ لائٹس ‘ اس قدر غضب ناک ہوتی ہیں کہ مخالف سمت سے آتے ہوئے بے چارے سوارکی آنکھوں کے اپنے چودہ طبق روشن ہوجائیں ۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ جب بھی کراچی میں گاڑی یا بائیکس چلائیں تو دوسروں کو بصارت سے محروم سمجھیں ۔ جن سے بچ بچا کر اپنے لیے راہ تلاش کرنا اولمپکس مقابلوں میں طلائی تمغہ لانے کے برابر ہے ۔