علی۔میرے بیٹے تم کہاں ہو۔۔تمہارے بنا میری زندگی میرے لئے ایک کڑی سزا بن چکی ہے۔۔
یہ فریاد روحی بانو کی تھی،جو وہ بیٹے کے قتل کے بعد تیرہ برسوں سے گلی گلی کررہی تھی۔۔
روحی بانو کو راہ چلتے طالب علموں میں اپنا بیٹا نظرآتا،وہ انہیں روک کر دیکھتی ، اورپھر سر پر ہاتھ پھیرکرجانے دیتی۔
علی کیا گیا جیسے روحی بانو ہی نہ رہی۔وہ جس حال میں جی رہی تھی ،اسے دیکھ کر چاہنے والے بھی خون کے آنسو بہاتے تھے۔لیکن آج روحی بانو کو اس درد اور تنہائی سے ہمیشہ کیلئے نجات گئی۔
روحی بانو کا ترکی کے شہر استنبول کے اسپتال میں انتقال ہوگیا۔
روحی بانو گردوں کے عارضے میں مبتلا تھیں۔ جبکہ نفسیاتی مرض شیزوفرینیا کا شکاربھی تھیں۔
روحی بانو 10 اگست 1951 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ فلم انڈسٹری میں ان جیسی حسین اداکارہ اورپڑھی لکھی اداکارہ کی آمد کو تازہ ہوا کا جھونکا سمجھا گیا۔
انہوں نے کئی مشہور ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے، جن میں کرن کہانی، زرد گلاب، دروازہ اور اشتباہ نظر شامل ہیں، روحی بانو کو صدارتی تمغہ برائے حُسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔
سن دو ہزار کی پہلی دہائی روحی بانو کیلئے مشکلات اور بری خبریں لیکر آئی۔ان کے مکان پر قبضے کی کوشش کی گئی۔۔بعد ازاں ایک واقعے میں ان کا بیٹا علی بھی دنیا سے چلا گیا۔دو ہزار پندرہ میں روحی بانو پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا۔انہوں نے نفسیاتی اسپتال ‘فاؤنٹین ہاؤس’ میں بھی خاصا وقت گزارا۔۔
دو ہزار سترہ میں روحی بانو منظر سے غائب ہوگئیں۔جِسے میڈیا میں ان کی ’’پراسرار گمشدگی‘‘ کا نام دیا گیا۔تاہم بعد میں خبر آئی کہ وہ ترکی میں بھائی کے پاس ہیں۔اوراپنا علاج کرا رہی ہیں۔اور ان کی طبیعت میں بہتری بھی ہورہی ہے۔
دکھوں نے روحی بانو کی زندگی کو بہت کچوکے دیئے تھے۔جس سے ان کا جسم ہی نہیں، روح بھی نڈھال ہوچکی تھی۔پچیس جنوری سن دو ہزارانیس کو یہ حسین ستارہ ہمیشہ کیلئے ماند پڑگیا۔
