رومیل چلا گیا۔۔

سن 2013 کی بات ہے..اس روز میں ہیرو ٹی وی کے نیوز روم میں تھا..اچانک سوشل میڈیا پر سرفنگ کے دوران ایک تصویر میرے سامنے آگئی..تصویر میں ایک رکشے کی بیک پر کرسچین کمیونٹی کی جانب سے درد مندانہ اپیل تحریر تھی کہ “شراب مسیحیت میں حرام ہے براہ مہربانی شراب کے پرمٹ کے نام پر مسیحیوں کو بدنام نہ کیا جائے ” .
بات بالکل درست تھی یہ تحریر پڑھ کر میں اپنے بازو میں بیٹھے ساتھی سے کہنے لگا کہ یہ بڑے شرم کا مقام ہے کہ شراب جیسی خراب چیز کا پرمٹ اقلیتوں کے نام پر جاری کیا جاتا ہے. یعنی سرکاری سطح پر مزاہب کی تضحیک کی جاتی ہے, تضحیک کا لفظ یہاں اس لئے استعمال کیا کیونکہ شراب کسی مذہب میں جائز نہیں ہے..
میری اس بات پر بازو میں بیٹھے دوست نے مجھ سے اختلاف کیا.. اور اس سے میری بحث شروع ہوگئی.. دوست کا اصرار تھا کہ کچھ مذاہب میں شراب منع نہیں ہے..
اسی وقت پیچھے سے ایک آواز آئی..

” شعیب واجد بھائی، ٹھیک کہتے ہیں پاکستان میں اقلیتوں کو خوامخواہ شراب سے نتھی کردیا گیا ہے. جبکہ شراب ہر مذہب میں ممنوع ہے ” .

یہ آواز رومیل کینتھ کی تھی ، جو شاید اسی وقت اسائنمنٹ سے واپس آیا تھا.. اور ہماری گفتگو میں شامل ہوگیا تھا۔
رومیل مزید بولا کہ شراب ایک برائی ہے جیسے افیم یا چرس ہوتی ہیں اور لوگ بلا تخصیص مذہب ان کے نشے کی لت میں مبتلا ہوتے ہیں.. میں نے رومیل کی بات سے مکمل اتفاق کیا.
اتنے میں تقی شاہین صاحب یعنی ہیرو ٹی وی میں ہمارے باس، دفتر میں داخل ہوئے اور پھر دفتری معاملات پر بات شروع ہوگئی۔
ہیرو ٹی وی کے وہ دن بڑے یادگار تھے، ہم تمام ساتھی الیکٹرونک میڈیا میں اپنے سب سے منفرد تجربے سے گزر رہے تھے۔اور ہر نیا دن ہیرو ٹی وی میں ہمیں کریئیٹو پروڈکشن کے نئے تجربے سے روشناس کراتا تھا۔
رومیل ہیرو ٹی وی کی ٹیم کا حصہ ابتدائی دنوں سے ہی تھا ہم لوگ ٹریننگ پروگرام سے ہیرو ٹی وی کے رکن تھے، رومیل بنیادی طور پربزنس رپورٹر تھا، اور ہیرو ٹی وی کے ایک منفرد سیگمینٹ ’’دھنا دھن سو ‘‘ میں کونٹینٹ پروڈیوسر کی ذمہ داری ادا کررہا تھا،ساتھ ہی وہ اسپیشل بزنس ایونٹس کی کوریج بھی کرتا تھا۔رومیل کی اورہماری ٹیمیں الگ الگ تھیں ، میں ’’رپورٹر دس زبردست‘‘ کا کونٹینٹ دیکھتا تھا۔ ہم لوگ اپنے اپنے کام میں بزی ہوتے۔لیکن جب بھی کبھی ساتھ بیٹھتے تووقت یادگار بن جاتا۔ کئی دوستوں کو یاد ہوگا کہ رومیل اکثر صبح صبح صدر سے آتے ہوئے چنے اور پراٹھے لے آتا اور ساتھیوں کی گرم گرم ناشتہ دیکھ کر بانچھیں کھل جاتیں۔
میڈیا میں لوگوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ آنا جانا لگا رہتا ہے ، ان دنوں ’’اب تک‘‘ چینل اپنے قیام کے مراحل میں تھا، اور لوگ وہاں اپنا کیریئر تلاش کرنے جارہے تھے، رومیل نے بھی ایک روز ’’اب تک نیوز‘‘ میں انٹری دےدی اور بحیثت بزنس رپورٹر اور میزبان ایک شاندار سفر کا آغاز کیا۔ یوں اس کی الگ اورمنفرد دنیا بس گئی ۔
وقت بڑا ستم طریف ہے ، لوگوں کو فکر معاش میں ایسا الجھا کر رکھتا ہے کہ دیگر اداروں میں جانے والے دوستوں سے روابط سوشل میڈیا تک محدود رہ جاتے ہیں۔یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔
ایک روز سوشل میڈیا پر ہی اس کی طبیعت خرابی کی اطلاع ملی۔ معلوم ہوا کہ اسے کینسر نے آن گھیرا ہے۔
رومیل اب کینسر سے لڑ رہا تھا۔یہ جنگ کئی سال جاری رہی۔اس جنگ میں اسے ادارے کے قریبی دوستوں اور صحافی برادری کی کسی قدر مدد بھی حاصل رہی۔لیکن اصل جنگ تو اس دل ناتواں نے خود ہی لڑنی تھی۔جو اس نے آخری دم تک لڑی۔۔اور پھر ایک دن یہ جنگ ختم ہوگئی۔۔رومیل چلا گیا۔۔
دعا ہے اللہ پاک اس کی مغفرت فرمائے اور اس کی اہلیہ اور بچوں پر اپنی رحمتیں برسائے۔۔آمین
(شعیب واجد)

………………………………………………………………………………………………………………..

.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں