Warning: mysqli_query(): (HY000/1194): Table 'wp_upviews' is marked as crashed and should be repaired in /home/kehdopak/public_html/wp-includes/class-wpdb.php on line 2351

Warning: mysqli_query(): (HY000/1194): Table 'wp_upviews' is marked as crashed and should be repaired in /home/kehdopak/public_html/wp-includes/class-wpdb.php on line 2351

مخمصہ (حسن علی امام)

قبلہ شمیم اعظم نقوی صاحب ایک مرتبہ استاد طاہرعباس صاحب سے الجھ گئے کہ یہ بتاو مخمصہ کیا ہوتا ہے۔ طاہرصاحب نے ہر ممکن تعریف بیان کی مگر شمیم صاحب کی تشفی نہیں ہوئی۔سوالات سے تنگ استاد نےانھیں ایک قصہ سنانے کی ٹھانی ، گویا ہوئے کہ کراچی میں ڈاکٹرمحمد علی شاہ کا بڑا نام تھا۔ایک مرتبہ مرحوم نے ایک زخمی کی کٹی ہوئی ٹانگ جوڑ دی تھی۔شمیم صاحب نے کہا ہاں یہ تو ہمیں بھی یاد ہے۔
اس پراستاد نے فرمایا کہ اس کے کچھ عرصے بعد ایک اور واقعہ ہوا۔ ناظم آباد میں اے او کلینک کے سامنے والی سڑک پرباپ بیٹا موٹر سائیکل پر جارہے تھے ۔ ان کے آگے ایک ٹرک تھا جس میں فولادی چادریں لدی تھیں ۔ اچانک ٹرک سے ایک فولادی چادر اُڑی اور سیدھی باپ بیٹے کی گردن پر آئی۔دونوں کی گردنیں کٹ گئیں ۔ لوگ بھاگم بھاگ دونوں دھڑ اور کٹے ہوئے سر لیکر ڈاکٹرصاحب کے پاس پہنچے۔ جنھوں نے طویل آپریشن کے بعد کٹے ہوئے سردھڑوں سے جوڑ دیئے۔ دونوں زندہ بچ گئے ۔
دو ماہ تک دونوں باپ بیٹا انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رہے گھر والوں کو بھی ملنے کی اجازت نہیں تھی ۔ جب دو ماہ بعد وہ گھر آئے تو معلوم ہوا باپ کا سر بیٹے کے دھڑ پر لگ گیا اور بیٹے کا سر باپ کے دھڑسے جڑ گیا۔ شمیم صاحب بہت ہی حیرت سے یہ داستان سن رہے تھے۔ طاہر صاحب گویا ہوئے ۔۔ مسئلہ یہ پیدا ہوگیا کہ اب بیٹے کی بیوی شوہر کے دھڑ کے ساتھ کمرے میں رہے یا شوہر کے سر کے ساتھ ؟صورتحال انتہائی پیچیدہ ہوچکی تھی ۔
بیٹا اپنی بیوی کا ہاتھ تھامنا چاہے تو وہ نیک بخت کہتی کہ مجھے ابا جان کے ہاتھوں سے شرم آتی ہے ۔ سُسر اپنی بیوی کے پاس اس لئے نہیں پھٹکتے کہ دھڑ بیٹے کا ہے۔۔
الغرض زندگی اجیرن ہوگئی ۔ تمام معمولات ٹھپ ہو گئے۔شمیم صاحب پوری توجہ سے سن رہے تھے اور بہت پریشان تھے کہ اب کیا ہوگا ۔ استاد نے کہا۔۔۔ تو شمیم صاحب اب بتائیں کہ اس مسئلے کا حل کیا ہو؟شمیم صاحب سادہ آدمی ہیں پیچیدہ مسئلے پر پریشان ہوگئے بلکہ یوں کہئے کہ “مخمصا” گئے ۔۔ کہنے لگے ۔۔ یار طاہر دماغ بند ہوگیا کچھ سمجھ نہیں آرہا کیا کیا جائے ۔۔ استاد گویا ہوئے ۔۔ شمیم صاحب بس یہ جو آپ کی کیفیت ہے نا اسے مخمصہ کہتے ہیں ۔
یہ قصہ آج یوں یاد آگیا کہ آج ایک پشتون دوست افسردہ بیٹھے تھے ہم نے پوچھ لیا قبلہ کیا بات ہے کیوں منہ لٹکائے بیٹھے ہیں ؟ کہنے لگے۔۔یار عجیب بات ہے اس پی ایس ایل کرکٹ نے تو منافقت کی حد کردی ، یار دیکھو میں پشاور کا ہوں ۔ پشاور میرا شہر ہے۔ پورا بچپن وہیں گزرا ہے ۔ شاہد آفریدی بھی وہیں کا ہے ۔ پچھلی مرتبہ وہ پشاور کی ٹیم میں تھا ۔ ہم سب پرجوش تھے ۔ اب سمجھ نہیں آتا کیا کروں ؟ پشاور زلمے کی حمایت کرتا ہوں تو شاہد آفریدی کی مخالفت ہوجاتی ہے ۔ شاہد آفریدی کی حمایت کرتا ہوں تو پشاور زلمے کی مخالفت ہوجاتی ہے۔ کس کی مخالفت کروں کس کی حمایت کروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔
ہم نے عرض کیا کہ پی ایس ایل کا مقصد ہی یہی ہے کہ قوم علاقائی تعصب سے بچ کر وحدتِ ملی کی طرف آئے لہذا آپ کھیل دیکھیں جو ٹیم اچھی لگے اس کی حمایت کریں ۔ کہنے لگے یہی تو منافقت ہے اگر علاقائیت اور تعصب سے بچانا مقصود تھا تو ٹیموں کے نام شہروں کے نام پر کیوں رکھے ؟ قائد اعظم الیون، اقبال الیون وغیرہ کیوں نہیں ؟ یہ دلیل سن کر اندازہ ہوا کہ واقعی یہ فرد کی بات نہیں معلوم ہوتا ہے پوری قوم ہی مخمصے کا شکار ہے۔ نعرہ کچھ لگتا ہے عمل کچھ ہوتا ہے۔ منزل کہیں اور ہوتی ہے ۔ سفر کسی اور سمت میں کیا جاتا ہے ۔ کاش من حیث القوم ہم اس “مخمصائی” سے باہر نکل سکیں۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں