تحریر۔۔شمس الواحد
سندھ میں 1839 میں پہلی فوجی عدالت قائم کی گئی اور پہلے شخص کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا ۔جب انگریزوں نے تالپور حکمران کی کمزوریوں اور سیٹھ ناو مل ہوت چند کی سازشوں کے باعث کراچی کو انگریزوں کے حوالے کیا تو انگریز اپنی خواتین اور بچوں کے ساتھ کراچی کے مختلف علاقوں کی سیر کرتے تھے اور وہاں عام آدمی کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا جاتا تھا۔ منگھو پیر کے قدرتی چشمے ان کے پسندیدہ ترین مقامات میں سے ایک تھے۔ جس دن ان چشموں کی سیر پر انگریز افسران جاتے اس دن مقامی افراد پر یہاں آنے کی پابندی ہوتی تھی۔ان علاقوں کے لوگ زیادہ تر گلہ بان تھے اور منگھو پیر کے چشموں سے ان کی بھیڑ بکریاں روزانہ کی بنیاد پر پانی پیتی تھیں۔ انگریزوں کی جانب سے لگائی جانے والی پابندی سے لوگ متاثر ہوتے تھے اور ان ہی پابندیوں نے لوگوں میں نفرت کے جذبات کو بھڑکا دیا تھا۔
کراچی شہر کے اطراف میں خاص طور پر ملیر ، کوہستان اور حب تک کے علاقے قبائلی چراگاہوں پر مشتمل تھے اور قبائل صدیوں سے آزاد حیثیت میں یہاں بس رہے تھے۔انگریزوں کے آنے سے ان میں احساس پیدا ہوا کہ ان کی آزادی سلب ہو چکی تھی اور وہ اپنی سرزمین کو غیروں کے ہاتھوں جاتے دیکھ کر انتہائی غم و غصے میں تھے۔ لیکن ان کے پاس جدید اسلحہ اور فوجی طاقت نہ تھی اس لیے انھوں نے چھاپہ مار کارروائیوں کا راستہ اختیار کیا جس نے کئی ماہ تک انگریز سرکار کے لیے مشکلات پیدا کیے رکھیں۔ایک روز شام کو پانچ بجے کیپٹن الیگزینڈر ہینڈ گھوڑے پر سوار ہو کر اپنی اہلیہ میٹلڈا واٹسن کے ساتھ سواری کے لیے منگھو پیر کی پہاڑیوں کی طرف نکل گئے ، آگے جاکر اپنے سپاہیوں کو رکنے کا کہہ کر خود اہلیہ کے ساتھ آگے نکل گئے ، کافی دیر ہوگئی مگر واپس نہیں آئے ، مقامی سپاہیوں نے بہت ڈھونڈا مگر نہیں ملے تو سپاہیوں نے چھاونی میں خبر دے دی ، شام کے سات بج گئے لیکن کیپٹن چھاونی واپس نہیں لوٹے۔ فوج کے سپہ سالار کرنل سپلر نے ان کی تلاش کے لیے سپاہی پہاڑیوں کی طرف روانہ کئے ، سب نے مل کر کیپٹن الیگزینڈر ہینڈ کی تلاش شروع کی ، لالٹین کی روشنی میں سپاہیوں کو ایک گڑھے میں انسانی جسم نظر آیا جو کیپٹن الیگزینڈر کی لاش تھی مگر نا وہاں ان کی اہلیہ تھیں اور نا گھوڑا تھا ، ساڑھے نو بجے یہ سپاہی واپس چھاونی میں پہنچے۔ کیپٹن الیگزینڈر ہینڈ کی لاش ایک گھوڑے پر دیکھ کرنل سپلر اور ناو مل پریشان ہو گئے ، ناو مل اس وقت چھاونی میں موجود تھا۔ سپاہیوں نے بتایا کہ کیپٹن کی لاش ایک گڑھے میں موجود تھی اور انھیں بیدردی سے قتل کیا گیا ہے، ان کے گھوڑے اور اہلیہ کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
سیٹھ ناو مل نے کرنل سپلر کو چند سپاہی اور چند کھوجیوں کو لانے کا کہا کہ پیروں کے نشانات سے قاتل کا پتا لگاو۔ ناو مل نے انھیں کہا کہ جب تک تم واپس نہیں آو گے اس وقت تک میں چھاونی سے باہر نہیں نکلوں گا۔ وہ تین چار گھنٹوں کے بعد وہ لوٹ آئے اور بتایا کہ بزدلی کا یہ کام شاہ بلاول (شاہ نورانی) کے خلیفہ چاکر نے “چھٹا” اور “بدیجا” قوم کے لوگوں کی مدد سے کیا ہے۔اس شخص کا نام “چاکر نوتک کلمتی” تھا ، چاکر کلمتی کا تعلق صوبہ بلوچستان کے موجودہ علاقے حب سے تھا اور ان کا خاندان درگاہ جئے شاہ نورانی کا مجاور تھا۔معروف سندھی محقق و ادیب “گل حسن کلمتی” اپنی کتاب “کراچی کے لافانی کردار” میں لکھتے ہیں کہ چاکر کلمتی کا تعلق کلمتیوں کی “رجیرا” شاخ سے تھا۔ یہ کمیونٹی کراچی، ٹھٹہ، بدین، حیدرآباد، جام شورو، لسبیلہ اور حب میں بڑی تعداد میں بستے ہیں۔
سیٹھ ناو مل کی سازشوں سے “چھٹا” اور “بدیجا” کے ان افراد کو گرفتار کیا جنہوں نے اعتراف کیا کہ چاکر کلمتی ہی اس قتل کا ذمہ دار ہے۔چاکر کلمتی اس دوران کیپٹن کی اہلیہ کو خان آف قلات کے پاس انتہائی ادب واحترام کے ساتھ امانتاً چھوڑ آئے ، پھر کراچی لوٹ آئے اور پھر چھاپہ مار کارروائیوں میں مصروف ہو گئے ، یہ ایک لمبی کہانی ہے کہ کس طرح سیٹھ ناومل اور انگریزوں نے سازشیں رچی ، بہر الحال مخبروں کی مدد سے چاکر نوتک کلمتی کو حب کی “چچڑی” نامی پہاڑی سے گرفتار کیا گیا۔ اس وقت سندھ میں پہلی فوجی عدالت قائم کی گئی حالانکہ تالپور حکمرانوں کی عدالتیں کام کر رہی تھیں ، مگر پھر بھی فوجی عدالت لگائی گئی جس میں جیوری کے تین ارکان میں سے ایک سیٹھ ناو مل بھی شامل تھا ، اور چاکر کو سزائے موت سنا دی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ چاکر کلمتی کو اسی مقام پر پھانسی دی جائے جہاں کیپٹن الیگزینڈر ہینڈ کو قتل کیا گیا تھا۔ فوجی عدالت کرنل سپلر، میجر ڈونو ہائی اور ناومل پر مشتمل تھی۔ یہ سندھ میں قائم ہونے والی پہلی فوجی عدالت تھی۔ چاکر سے بار بار ان کے شریک ملزمان کا پوچھا گیا مگر انھوں نے کہا کہ یہ کام انھوں نے اکیلے کیا ہے۔
جب سزائے موت پر عملدرآمد کا وقت پر چاکر سے ان کی آخری خواہش پوچھی گئی تو انھوں نے کہا کہ مجھے کسی اونچی جگہ پر پھانسی دی جائے اور زندان سے لے کر پھانسی گھاٹ تک آنکھوں پر پٹی نہ باندھی جائے تاکہ میں آخری سانس تک اپنی سرزمین کے درختوں اور مناظر کا نظارہ کر سکوں۔ان کی یہ خواہش تسلیم کر لی گئی۔نیشنل اسٹیڈیم کراچی کے قریب ڈالمیا میں موجود پہاڑی پر انھیں پھانسی دی گئی۔ پھانسی سے قبل کراچی آنے والے راستوں کو بند کیا گیا تھا۔محقق گل حسن کلمتی کے مطابق مقامی لوگوں نے پھانسی کی یاد میں پتھر رکھ کر لکڑا لگایا تھا اور اس پہاڑی کا نام بھی چاکر سے منسوب کر دیا گیا تھا۔ سنہ 1913 کے سروے نقشے میں اس جگہ کا نام ’جبل چاکر پھانسی‘ موجود ہے جو آج بھی چاکر پھانسی کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں سے ایک برساتی نالا بھی نکلتا ہو جو ملیر ندی میں شامل ہو جاتا ہے۔
چاکر خان کی میت پہلے منگھو پیر لے جائی گئی اور پھر وہاں سے شاہ نورانی لے جا کر دفن کر دی گئی۔ چاکر کے خاندان کے لوگ آج بھی شاہ نورانی کے مجاور ہیں۔کیپٹن ہینڈ کی تدفین بندر روڈ پر ریڈیو پاکستان کراچی کے قریب واقع مسیحیوں کے قبرستان میں کی گئی۔ گل حسن کلمتی کے مطابق یہ مسیحیوں کا پہلا قبرستان تھا جو جامعہ کلاتھ سے پہلے اقبال سینٹر کے عقب میں واقعہ تھا، جس کا اب نام و نشان نہیں رہا ہے ۔