دسمبر کی سرد ہوائیں چلتے ہی کچھ لوگوں کی آہیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ کچھ نقاد ان آہوں کو آہ و بکا سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کنوارے اس مہینے میں ہائے ہائے کررہے ہوتے ہیں اور جو کنوارے نہیں ہوتے وہ بائے بائے کررہے ہوتے ہیں۔ ہائے ہائے اور بائے بائے کی مزید تفصیلات جاننے کیلئے سوشل میڈیا کا رخ کیا جاسکتا ہےجہاں دسمبر میں بن برسات ہی بے شمار انٹرنیٹی مینڈکوں میں شاعر جاگ چکا ہوتاہے۔ معزرت کے ساتھ دسمبر کو شاعری میں آج کل ایسا رگڑا لگایا جارہا ہے کہ اسے بھی نانی یاد آرہی ہوگی۔۔
یہاں یہ سوال بھی کچھ لوگ یقیناّ اٹھائیں گے، کہ دسمبر کی نانی کون ہے؟صدقے جاؤں میں ان لوگوں کے جو ایسے سوالات اٹھاتے ہیں جن کا جواب ان کے نانا کو بھی نہیں آتا ہوگا، لیکن کیا کیجئے، دنیا کو یہ یقین بھی تو دلانا ہوتا ہے کہ انھوں نے سولہ سال تعلیمی اداروں کی چار دیواری میں گزارے ہیں۔
دسمبرسال کا آخری مہینہ ہے، اور ٹھنڈک میں جنوری جیسا ہی ہوتا ہے، لیکن دسمبر کو ٹھنڈ کا پیمانہ بنا کر رومانس سے ایسے جوڑ دیا گیا ہے، جیسے سردی اور عشق لازم و ملزوم ہوں ۔۔ لیکن لیلٰی مجنوں ، ہیر رانجھا اور سسی پنوں یا کوئی بھی عشقیہ داستان اٹھا کر دیکھ لیں، وہاں روٹی اور ساگ کا ذکر تو مل جائے گا، لیکن دسمبر کا ذکر نہیں ملے گا۔۔
ہماری حیرت پر کسی نے کہا کہ حضور حیران مت ہوں ، دسمبر اور عشق کا کوئی تعلق ہو یا نہ ہو، لیکن آج کل دسمبر کی شاعری کا فیشن ضرور چل رہا ہے۔۔ ان کی اس بات سے جیسے واقعی ہمارے ذہن سے کوئی پردہ ہٹ گیا۔جیسے کپڑوں کا کوئی نیا فیشن آتے ہی منچلوں کی فوج نیلی پیلی پٹیوں اور کھرنڈ کی طرح جسم سے چپکے ملبوسات زیب تن کرکے دھوم مچانے نکل آتی ہے، بالکل ایسے ہی شاعری کے فیشن باز بھی دسمبر میں اپنی انٹری مارتے ہیں۔اور شاعری کا فرض ادا کرکے اپنے من کا بوجھ سوشل میڈیا پر پھینک کر چلےجاتے ہیں ۔۔
دسمبر پر آخر یہ مار کیوں پڑی ہے؟ اس تحقیق کے دوران کئی راز ہم پر کھلتے چلے گئے ۔۔ یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ کرسمس کا تہوار بھی دسمبر میں آتا ہے ، اور دنیا بھرمیں کرسمس کا زبردست جشن منایا جاتا ہے ، امریکا اور یورپ میں تو جیسے عید ہورہی ہوتی ہے، ایسے میں نیلی آنکھوں اور سنہرے بالوں والی مخلوق کے رنگ دیکھ کر ہمارے شاعروں کے دل کا، پھڑک کر گلے میں چلے آنا، کوئی انوکھی بات نہیں۔ اور ایسے میں دس بیس شعر بھی دسمبر کی یاد میں باہر نکل پڑیں تو بھی کوئی حیرت کی بات نہیں ۔۔
بات صرف یہیں پرختم نہیں ہوتی۔کرسمس کے فوری بعد نیوایئرکا جشن بھی قریب ہوتا ہے۔۔
سال نو کا جشن ، رنگ و روشنیاں اور اوپر سے دسمبر کا آخری دن ۔۔ایسے میں جنھوں نے دل کی خاطر کچھ نہیں کیا ہوتا وہ کف افسوس مل رہے ہوتے ہیں ، اور ایسے میں وہ بھی کچھ دسمبری اشعار کہہ ڈالتے ہیں۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ دسمبر میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد میں شاعر کے جاگنے کی ایک وجہ موسم سرما کی خاص خوراک بھی ہوسکتی ہے۔ سردیوں میں لوگ اکثر مچھلی، تکا بوٹی اور سوپ کو ترجیح دیتے ہیں۔ ساتھ ہی مونگ پھلی، اخروٹ اور چلغوزوں کا استعمال بھی بڑھ جاتا ہے، ایسی غزاؤں کے بھی اپنے اثرات ہوتے ہیں۔۔
کل رات مجھے ایک عجیب خواب آیا، کہ دسمبر میرے پاس آیا ، اور مجھ سے بولا، دوست میرا قصور بتاؤ، کیوں مجھے کچوکے پر کچوکے لگاتے ہو۔ میں کہا کہ اے دسمبر، قصور تمہارا ہے، تم ایسے موسم میں آتے ہو جب صرف ہوائیں ہی ٹھنڈی ہوتی ہیں ۔ ایسے میں گرم آہیں شاعری میں بدل جاتی ہیں اور پڑھنے والوں کے سر پر اولے بن کر برستی ہیں۔۔ دسمبر بولا ، تو میں کیا کروں اب؟ میں نے کہا کہ تھوڑا دیر سے آیا کرو،جب ٹھنڈ نکل جائے۔۔
نجانے دسمبر کو میری بات کتنی سمجھ آئی، اس نے سنا اور اُسی وقت کھڑکی سے باہر نکل گیا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
(شعیب واجد)