Warning: mysqli_query(): (HY000/1194): Table 'wp_upviews' is marked as crashed and should be repaired in /home/kehdopak/public_html/wp-includes/class-wpdb.php on line 2351

Warning: mysqli_query(): (HY000/1194): Table 'wp_upviews' is marked as crashed and should be repaired in /home/kehdopak/public_html/wp-includes/class-wpdb.php on line 2351

جون ایلیا۔۔اقدارشکن شاعر(14 دسمبر 1931 تا 8 نومبر 2002)

جون ایلیا کو اقدار شکن اور باغی شاعر کہا جاتا ہے، آج وہ تو دنیا میں نہیں لیکن ان کی یادیں زندہ ہیں،انہیں دنیا سے گزرے ہوئے سولہ سال بیت چکے ہیں لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو،، منفرد اور چونکا دینے والے لہجے کی وجہ سے وہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔
اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی!!
محبوب کے ساتھ جون ایلیا کا بے باکانہ رویہ اردو شاعری میں بے حد نرالا ہے جو بعض اوقات جارحیت میں بدل جاتا ہے۔
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
جون ایلیا نے جو بے تکلفانہ اور لاگ لپٹ سے پاک انداز محبوب سے اپنا رکھا تھا، وہی انداز دوسرے موضوعات میں بھی برتا ہے۔
سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کرنہ گلا چھیل لے کوئی

کہا جاتا ہے جون ایلیا اپنے زمانے سے تقریباً دو سو برس بعد پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب تہذیب رخصت ہو رہی تھی اور فن کی قدر کرنے والے بے سروساماں ہو چلے تھے۔
جوگزاری نہ جاسکی، ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
جون ایلیا 14 دسمبر1931 کو امروہہ کے ایک علمی اور ادبی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے بھائی رئیس امروہوی بھی نمایاں شاعر تھے اور انھوں نے جنگ اخبار میں روزانہ قطعہ لکھ کر شہرت حاصل کی۔ جون کے ایک اور بھائی سید محمد تقی تھے جو نامور صحافی گزرے ہیں۔ اس کے علاوہ جون کے بھانجے صادقین تھے، جو ممتاز مصور اور خطاط ہونے کے ساتھ رباعی کے عمدہ شاعر بھی تھے۔ جون ایلیا نے امروہے کی گلیوں میں ہوش تو سنبھالا، مگر خود کو زندگی بھر نہ سنبھال پائے۔ وہ مسکان، مجسم حسن اور شراب کے دلدادہ تھے۔ محبوب کی دید کی چاہ میں بے چین رہتے ۔۔
چاہ میں اُس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لوسرخی ، مرے رخسار کی

جون ایلیا کی شاعری ہمارے دل کی آواز لگتی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ”یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ہمیں اب ایک دوسرے کے دکھ سے کوئی واسطہ نہیں رہا” جون ایلیا نے اپنی زندگی میں اگر کوئی روگ پالا بھی تو اس قدر حسین طریقے سے کہ دکھ، پھر دکھ نہ رہا۔
کتنی دلکش ہو تم، کتنا دل جو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
……………………………………………..

( کامران مغل)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں