آپ نے غور کیا ہوگاکہ جب لائٹ جاتی ہے تو کئی قسم کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ان میں سے کچھ آوازیں آپ کے اپنے گھر والوں کی ہوتی ہیں،اور کچھ باہر والوں کی بھی سنائی دیتی ہیں۔ کچھ آوازیں دل سے بھی نکلتی ہیں،لیکن ان کا ذکر ہم بعد میں کریں گے، پہلے بات ہوجائے منہ سے نکلنے والی آوازوں کی۔
اکثر لوگ اپنے موبائل فون میں گم ہوتے ہیں، اور بجلی جاتے ہی ان کا وائی فائی بھی آف ہوجاتا ہے،یہ ستم انھیں پنکھا بند ہونے سے بھی ذیادہ محسوس ہوتا ہے۔اسی طرح ٹی وی بند ہونے پر بھی کئی لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ عین کلائمکس کے موقع پر بجلی بند ہوگئی۔۔
خواتین اگر کچن میں کام میں مصروف ہوں اور لائٹ چلی جائے تو ان کی ذمہ داری ختم ، اب کھانا جیسا تیسا پکے الزام بجلی والوں کے سر تھونپا جانا ہے۔ویسے تھونپا جانا بھی چاہیئے۔
بندہ بشر ہے اس لئے جب بجلی بند ہوتی ہے تو وہ لوگ جو اس وقت باتھ روم میں ہوتے ہیں۔جلدی جلدی نکلنے کی کوشش کرتے ہیں،اور اگر بچے باتھ روم میں ہوں تو ڈر لگ رہا ہے کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔
لوڈ شیڈنگ محض اندھیرا ہونے کا نام نہیں،بلکہ اس سے مخصوص وقت کیلئے زندگی جامد ہوجاتی ہے، اور وقت کا زیاں بھی ہوتا ہے، یہ بہت بڑا نقصان ہوتا ہے۔
لوڈ شیڈنگ کے دوران بچوں کا خاص طور پر دھیان رکھنا چاہیئے۔کیونکہ اندھیرے میں انھیں چوٹ لگ جائے تو یہ اندازہ بھی نہیں ہورہا ہوتا کہ انھیں سہلانا کہاں ہے۔
گھر میں اگر کوئی مریض ہو یا کسی طالب علم کے امتحانات ہورہے ہوں تو لوڈ شیڈنگ، تعلیم اور صحت دونوں کیلئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
جس وقت بجلی بند ہوتی ہے اس وقت منہ سے تو ہائے ، اف ، ابے یار ، ارے ، کی آوازیں نکلتی ہیں، لیکن دل سے جو آوازیں نکل رہی ہوتی ہیں، انھیں تحریر میں لانا ممکن نہیں، ان اوازوں کے بارے میں بجلی والے بھی اکثر اشتہار شائع کراتے رہتے ہیں، کہ خبردار گالی دینا گناہ ہے ، یا الٹا سیدھا بولا تو وضو جاتا رہے گا ، وغیرہ وغیرہ۔۔
ملک میں موم بتیوں ، جنریٹرز، یو پی ایس اور سولر سسٹم کا کاروبار بھی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پھل پھول رہا ہے، تباہی سے ترقی جنم لے رہی ہے، روزگار کے مواقع بھی پیدا ہورہے ہیں۔اس لئے اس کاروبار سے وابستہ افراد لوڈشیڈنگ زندہ باد کا نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں۔ضرور لگائیں کس نے روکا ہے، لیکن کوشش کریں کہ آواز کسی کے کان میں نہ جائے۔
دوستو: ملک میں بجلی اب ضرورت سے ذیادہ ہے، لیکن پھر بھی لوڈ شیڈنگ عروج پر ہے ، اس کی وجہ یہی ہے کہ بجلی کا شعبہ نجی کمپنیوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے، یعنی یہ شعبہ اب تاجروں کے ہاتھ میں ہے جو اس شعبے کو عوامی ضرورت کے بجائے کاروبار کے طور پر ڈیل کرتے ہیں۔اور اپنا منافع پورا رکھنے کیلئے عوام کو سخت اذیت سے دوچار کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
کے الیکٹرک کی مثال لے لیجئے،جب تک حکومت کے ہاتھ میں تھا تو سالانہ ایک آدھ ارب ہی نقصان میں تھا،اب پرائیوٹ ہوگیا ہے،پرائیوٹ کمپنی اس سے سالانہ بتیس ارب روپے منافع کما کر پاکستان سے باہر منتقل کررہی ہے، زرا غور کیجئے وہ بڑا نقصان تھا یا یہ بڑا نقصان ہے؟
عوامی مفاد کے منصوبے تاجروں کے حوالے کرنا ایسا ہی ہے جیسے ایک نئی ایسٹ انڈیا کمپنی کو جنم دینا۔جھٹکے کا گوشت کھانے والے یہ لوگ بجلی بھی جھٹکے سے بند کرتے ہیں۔جب تک قسمت ان کے ہاتھ میں دی جاتی رہے گی، جھٹکے لگتے رہیں گے۔
