بڑی پرانی بات ہے کہ ہمارے پڑوس میں ایک الیکٹرونکس کے سامان کی دکان تھی جہاں پنکھوں سے لیکر ٹی وی اور فریج تک دستیاب ہوتے تھے۔ دکان کے مالک ‘بٹ صاحب’ تھے جبکہ ان کے تین بیٹے مددگار کے طور پر دکان میں کام کرتے تھے، ایک بیٹے کا نام ’ ننھا ‘ تھا ۔ ننھا اسے عمر میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے کہا جاتا تھا، ورنہ قد کاٹھ میں وہ کسی ریسلر سے کم نہ تھا،عمر اس کی بیس اکیس سال ہوگی۔ پڑوس کی دکان ہونے کی وجہ سے اکثر ہم بھی گپ شپ کیلئے وہاں جاکر بیٹھ جاتے تھے ۔۔
وہ رمضان کے دن تھے اور افطارمیں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ کہ ہم ان کی دکان پرجاپہنچے،دکان میں میز پر شاندار افطاری سجی ہوئی تھی لیکن وہاں اصل منظر کچھ اور ہی تھا، ہم نے دیکھا کہ دکان میں ننھا، بٹ صاحب کے ہاتھوں بری طرح پٹ رہا ہے۔ بٹ صاحب اسے اس لکڑی سے پیٹ رہے تھے جس لکڑی کے سرے پر کپڑا لگا ہوتا ہے اور اس سے سامان کی گرد جھاڑنے کا کام لیاجاتا ہے۔
بٹ صاحب ننھے کی ‘‘گرد جھاڑتے ہوئے’’ مسلسل کچھ بڑبڑا بھی رہے تھے، جو ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔اور موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے اس وقت ہماری دکان میں داخل ہونے کی ہمت بھی نہ پڑی۔۔
دکان کے باہر ننھے کا بڑا بھائی بھی کھڑا تھا ہم نے اس سے پوچھا کہ ماجرا کیا ہے؟ ابا غصے میں کیوں ہیں۔۔ اس پر وہ بولا کہ بات یہ ہے کہ ابا کرسی پر بیٹھے اونگھ رہے تھے،افطارمیں آدھا گھنٹا باقی تھا کہ ننھے نے ازراہ مزاق ازان دینا شروع کردی۔ازاں کی آواز سن کر ابا ہڑ بڑا کر اٹھ گئے اور سمجھے کہ افطاری کا وقت ہوگیا ہے۔اور انھوں نے کھجور منہ میں رکھ لی۔۔اتنے میں، میں نے چلّا کر کہا ابا کھجور نہ نگلنا ابھی افطار کا وقت نہیں ہوا۔۔
یہ سارا معاملہ چند سیکنڈ میں ہوگیا، ابا کو جب ساری بات سمجھ آئی تو ان کا پارہ ہائی ہوگیا ،اور اب ننھے کو جو مار پڑ رہی ہے اس کی وجہ بھی اس کی یہی حرکت ہے۔
خیر تھوڑی دیر بعد بٹ صاحب نے ننھے کی جاں بخش دی اور کچھ دیر بعد افطار کا وقت بھی ہوگیا۔اور ہم بھی افطار کرنے گھر چلے گئے۔۔
افطار کے بعد نماز وغیرہ سے فارغ ہوکر باہر نکلے تو ننھے سے ملاقات ہوگئی۔اس وقت اسکو پڑی مار کے اس پرکوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے، ہمیں دیکھ کر وہ دانت نکالنے لگا ۔ ہم نے پوچھا کہ زیادہ چوٹ تو نہیں لگی؟ وہ ہنستے ہوئے بولا کہ ،نہیں، بلکہ الٹا ابا کی لکڑی ہی ٹوٹ گئی۔
ننھے کی ڈھٹائی پر ہم حیران تھے اور آج پچیس سال بعد بھی ۔ میں جب وہ ڈھٹائی یاد کرتا ہوں تو مجھے ایک قوم یاد آجاتی ہے ۔ وہ ایسے کہ ، وہ قوم بھی غلط وقت پر ازان دیتی ہے، میرا مطلب ہے کہ اپنے ووٹ کاغلط استعمال کرتی ہے۔اور غلط ووٹ دینے سے اس قوم کو بھی ننھے کی طرح پانچ سال تک مارپڑتی رہتی ہے۔ لیکن اس مار کے باوجود یہ لوگ شرمندہ نہیں ہوتے، اور ننھے کی طرح دانت نکال کر کہتے ہیں کہ ووٹ تو ’اپنے لیڈر ‘ کو ہی دینا تھا۔۔
خیر سے اب پھر ایک اور چناؤ قریب آچکا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ‘ ننھا ’ اس ‘ افطار’ کے وقت کیا گُل کھلاتا ہے۔
