ادویات کے شعبے میں‌خرابیاں

تحریر۔۔ شمس الواحد۔ ۔کراچی

ملک میں صحت عامہ کے نظام کی زبوں حالی کے کئی پہلو ہیں، مگر ایک ایسا پہلو جو شاید سب سے زیادہ نظرانداز کیا جاتا ہے، وہ ادویات کی فراہمی کی خدمات کی بدانتظامی اور غیر معیاری طریقہ کار ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق پاکستان میں موجود 50 ہزار سے زائد ادویات کی دکانوں میں سے 97 فی صد ایسی ہیں جہاں ادویات کو محفوظ رکھنے کے لیے درکار بنیادی سہولتیں مثلاً ٹمپریچر کنٹرولڈ ماحول اور بایوگریڈ ریفریجریٹرز موجود نہیں۔

اس سنگین غفلت کے نتیجے میں لاکھوں مریض غیر موثر یا مضر ِ صحت ادویات کے استعمال پر مجبور ہیں، جو ان کی بیماری کا علاج کرنے کے بجائے اسے مزید پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔ تشویشناک امر یہ بھی ہے کہ ادویات فروش مراکز پر کام کرنے والا عملہ جو صحت کے نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی اکثریت محض میٹرک یا انٹر پاس اور غیر تربیت یافتہ افراد پر مشتمل ہے۔ ان کی نہ صرف میڈیکل نالج محدود ہے بلکہ وہ دوا کی بنیادی معلومات، مقدار اور ممکنہ مضر اثرات سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ”ڈرگ اسٹور“ تو موجود ہیں، لیکن بین الاقوامی معیار کی ”ادویات کی دکان“ ناپید ہے۔ مارکیٹ میں گردش کرنے والی 40 فی صد ادویات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جعلی یا ناقص ہیں۔ ایسے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کس حد تک ایک غیر محفوظ اور غیر معیاری نظام کے رحم و کرم پر ہے۔

اس خرابی کے سدباب کے لئے سب سے پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ فارمیسی کو صرف کاروبار سمجھنے کے بجائے، ایک ریگولیٹڈ پیشہ تسلیم کیا جائے۔ حکومت کو فوری طور پر تمام فارمیسیز کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دینا چاہیے اور ان کی درجہ بندی تربیت یافتہ عملے، اسٹوریج سہولتیں اور ریگولیٹری شرائط کے مطابق کی جائے۔ فارماسسٹ کی تربیت کے لیے قومی سطح پر سرٹیفکیشن اور لائسنسنگ سسٹم متعارف کرایا جائے تاکہ ہر دوا دینے والے کی قابلیت ثابت شدہ ہو۔ جعلی اور ناقص ادویات کی روک تھام کے لیے ڈیجیٹل وریفیکیشن سسٹم، موبائل ایپلی کیشنز، اور صارف شکایتی مراکز قائم کیے جائیں۔ دوا ساز اداروں کو سختی سے پابند کیا جائے کہ وہ گڈ مینوفیکچرنگ پریکٹسز پر عمل کریں اور ان کے ہر بیچ کی لیبارٹری رپورٹ دستیاب ہو۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ الخدمت فاونڈیشن کا قدم ایک ایسی مثال ہے جو قابل تقلید ہے اگر حکومت، نجی شعبہ اور سول سوسائٹی اس سمت میں سنجیدگی سے کام کریں، تو پاکستان میں فارمیسی کا نظام بھی ایک محفوظ، معیاری اور عوام دوست نظام میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ صحت ایک بنیادی حق ہے، اور معیاری دوا اس حق کا ایک ناگزیر جزو، یہ وقت ہے کہ ہم صرف مرض کا علاج نہ کریں، بلکہ نظام کی بیماری کا بھی تدارک کریںیہی قوم اور ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں