تحریر: وقار ملک (لندن)
——————–
پاکستان کو بطورِ ریاست درپیش بڑا چیلنج مضبوط اور مربو ط خارجہ پالیسی کا ہے، ایسی خارجہ پالیسی جو ہمیں داخلی او رخارجی محاذوں پر مضبوط اور مستحکم پاکستان میں تبدیل کرسکے یہ قومی اور ریاستی ضرورت ہے ۔عمومی طور پر سیاست سے جڑے استاد یا خارجہ پالیسی کے بڑے سیاسی پنڈت یہ دلیل دیتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کی کامیابی کی بڑی کنجی داخلی سیاسی او رمعاشی استحکام سے جڑی ہوتی ہے یعنی جو بھی ریاست داخلی محاذ پر زیادہ مضبوط ہوتی ہے وہی خارجہ پالیسی میں دیگر ملکوں کے ساتھ اپنے سیاسی کارڈز بہتر طور پر کھیل سکتی ہے ،پاکستان کا ایک مسئلہ داخلی محاذ بھی ہے ، باالخصوص پچھلی چند دہائیوں میں دہشت گردی ، انتہا پسندی اور معاشی بدحالی سمیت سیاسی عد م استحکا م نے ہماری داخلی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کیاہے، گزشتہ چند ماہ سے ملکی اور بیرونی معاملات بہتر کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ،حکومت نے سفارت کاری کیلئے اہم اور تجربہ کار سفیروں کی تعیناتی کی ، شہباز شریف کی حکومت اور اداروں کے درمیان فیصلے باہمی مشاورت سے ہوئےموجودہ نگران حکومت بھی بہترین فیصلے کر رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ہم نے مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو عالمی لہر دی ہے اور آج دنیا بالخصوص عالمی میڈیا اور رائے عامہ کی تشکیل کرنے والے تمام ادارے بشمول خود بھارت سے یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہا ہے جس پر جہاں کشمیریوں کے اصل وکیل برسٹر عبدالمجید ترمبو بھارت کو ناکوں چنے چنواتے ہیں وہاں ہماری سفارت کاری بھی انمول کردار ادا کر رہی ہے ۔سب سے بڑی کامیابی ہم نے سفارتی محاذپر یہ حاصل کی ہے کہ ہم نے عملی طور پردنیا میں اس بیانیے کو تقویت دی ہے کہ پاک ،بھارت تعلقات کی بحالی میں رکاوٹ پاکستان نہیں بلکہ بھارت کی موجودہ حکومت ہے جو کسی بھی سطح پر نہ تو مذاکرات کی حامی ہے اور نہ ہی تعلقات کو بحال کرنا چاہتی ہے۔برطانیہ میں پاکستان کے تجربہ کار ہائی کمشنر ڈاکٹر فیصل اپنی تعیناتی کے فوری بعد بیان دے چکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا حل انتہائی ضروری ہے تاکہ خطے میں امن پیدا ہو ڈاکٹر فیصل جہاں ایک تجربہ کار سفارت کار ہیں وہاں ایک محب وطن پاکستانی ہیں جنھوں نے ہمیشہ پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی کے ساتھ اپنا پیار و محبت کا رشتہ بڑھایا، گروپ بندیوں کی مخالفت کی اور بحیثیت پاکستانی پاکستان کی خوشحالی کے لیے کردار ادا کرنے کی ترغیب دی، ڈاکٹر فیصل یوں تو لاتعداد ممالک میں پاکستان کی کامیاب سفارت کاری کا جھنڈا گاڑ چکے ہیں لیکن یورپین دارالحکومت برسلز میں انہوں نے جس طرح تمام صوبوں میں آباد پاکستانی شہریوں کو اپنے پاکستان کے قریب لایا ان کے بنیادی مسائل حل کیئے اور مسلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں جس قدر ای یوپارلیمنٹ میں کام کیا جی ایس پی پلس کے لیے کاؤشیں کیں اور سابق مشیر وزیراعظم و سابق سفارت کار طارق فاطمی کے ہراول دستہ بن کر پاکستان کا نام بلند کیا وہ کردار اور ایک مثال ہے۔ڈاکٹر فیصل کی برطانیہ میں تعیناتی ایک بڑا اچھا اقدام ہے جس سے برطانیہ اور پاکستان کے درمیان بہترین تعلقات قائم ہوں گے اور کمیونی کو ریلیف ملے گا۔ہمیں خارجہ پالیسی کے تناظر میں شارٹ ٹرم ، مڈٹرم او رلانگ ٹرم فکر اور سوچ یا حکمت عملی کی ضرورت ہے جو باہمی مشاورت یاتمام فریقوں کی مرضی سے طے ہونی چاہئے ۔ یہ فیصلے کسی ایک فریق نے نہیں کرنے بلکہ تمام فریقوں کی مشاورت ہی ہماری پالیسی کی ساکھ اور اہمیت کو داخلی اور خارجہ دونوں سطح پر بڑھا سکتی ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم دنیا میں سفارت کاری کے محاذ پر ایک بڑی سیاسی، انتظامی ، قانونی اور مالی سرمایہ کاری کریں ۔ یہ عمل روایتی اور فرسودہ سیاست سے ممکن نہیں ۔ہمیں اپنے سفارت خانوں اور سفارت کار دونوں سطحوں پرمزید کام کی ضرورت ہے، تاکہ ہم مزید بہتر نتائج حاصل کرسکیں ۔پاکستان کے لوگ عالمی سطح پر موجود رائے عامہ بنانے والے اداروں یا تھنک ٹینک سے خود کو یا اپنے بیانیے کو کیسے جوڑ سکتے ہیں اس پر زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں اب ایک نیا بیانیہ لے کر چلنا ہے جو تضادات سے پاک ہو اور سب کو ہمارے بیانیے میں کوئی بڑا الجھاؤ نظر نہ آئے اس لیے بہترین سفارت کاری کے ساتھ ساتھ پاکستان کا امیج اجاگر کرنا اور جو لوگ پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ان کا محاسبہ کریں اور ان کی کونسلنگ کریں تاکہ یہ راہ راست پر آئیں اور اپنے ملک کو مضبوط کریں۔ڈاکٹر فیصل جیسےمحب وطن عقل و دانش رکھنے والے محب وطن سفارت کار بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں ڈاکٹر فیصل کمیونٹی کےَلیے ایک بہترین تحفہ ہیں جن کی قدر کی جانی چاہیے۔
