Warning: mysqli_query(): (HY000/1194): Table 'wp_upviews' is marked as crashed and should be repaired in /home/kehdopak/public_html/wp-includes/class-wpdb.php on line 2351

Warning: mysqli_query(): (HY000/1194): Table 'wp_upviews' is marked as crashed and should be repaired in /home/kehdopak/public_html/wp-includes/class-wpdb.php on line 2351

ٹرک کی لال بتی (سید سعود ظفر)

سارا میڈیا سارا ہجوم ٹرک کی لال بتی کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ سب کو یہ فکر لاحق ہے کہ شاہد مسعود نے جھوٹ بولا یا سچ، ان کے پاس معلومات ہیں یا خبر۔ ڈاکٹر صاحب کو کون فیڈ کر رہا ہے۔ سارے جید صحافی اس وقت حاجی ثناء اللہ بننے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں۔ اس جاہل عوام کو سمجھا رہے ہیں کہ اطلاع کیا ہوتی ہے اور خبر کس بلا کا نام ہوتا ہے۔ کچھ اینکرز تو یہ تک سوچ رہے ہیں کہ انصاری صاحب پہ کیا بیتے گی جب وہ اس طرح کی باتیں سنیں گے۔ توبہ توبہ قیامت آجائے گی جب ایسی بات بھری عدالت میں کہی جائے گی۔
کسی نے پچھلے دنوں ایک سوال کیا کہ قیامت تب کیوں نہیں آئی جب ان ننھی بچیوں کے ساتھ یہ سب بدفعلیاں ہورہی تھیں۔ رائے ونڈ محل کی دیواریں تب کیوں نہ لرزیں جب اسی قصور شہر میں معصوم بچوں کی فحش ویڈیوز بنائی جارہی تھیں۔
لیکن ایک بنیادی بات، وہ یہ کہ کوئی یہ کیوں نہیں سوچ رہا کہ تین سال پہلے اسی قصور میں تین سو بچوں کے ساتھ زیادتی کیس کا کیا بنا۔
کوئی یہ بات کیوں نہیں پوچھ رہا کہ زینب کو لے جانے والا سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آنے والا شخص اور بعد میں پکڑا جانے والا شخص عمران ایک ہی آدمی ہے یا نہیں۔
کوئی یہ کیوں نہیں سوچ رہا کہ عمران علی اس ساری کارروائی میں اکیلا نہیں تھا، اس کے باقی ساتھی کہاں دفعان ہوگئے۔
کوئی یہ کیوں نہیں سوچ رہا کہ اگر عمران کو پاگل یا سیریل کلر قرار دے دیا گیا تو اس کے دیگر ساتھیوں کو کون بچانے پہ تلا ہوا ہے۔
ادھر مریم بی بی بھی اپنے آپ کو الطاف حسن سے بڑا لیڈر بنانے کے لئے پر تول رہی ہیں۔ کہتی ہیں کہ ہمیں ایسا پاکستان نہیں چاہیئے ویسا نہیں چاہیئے۔ ارے میڈم آپ کو نہیں چاہیئے ایسا یا ویسا پاکستان تو نکل لیجئے۔ کوئی نہیں پوچھے گا آپ سے۔ ویسے بھی تو حال ہی میں ہمارا ایک مشہور زمانہ قانون کا رکھوالا ایس ایس پی خود مجرم بننے کے بعد بھاگ لیا ملک سے۔ ہمارے ملک کا نامور وزیر خزانہ بھی تو چور ثابت ہونے کے ڈر سے بیمار پڑ گیا اور واپسی کی کوئی راہ ہی نہیں لے رہا۔ تو پھر آپ کو کیا کسی کا ڈر، کس کی فکر۔
اندھوں کے اس شہر میں سب ایک دوسرے کو ٹٹول ٹٹول کر چیک کر رہے ہیں۔ سب اس کوشش میں ہیں کہ شاید کوئی دوسرا اندھا کسی طرح چشم کشا حقیقت ہمارے سامنے لے آئے اور ہم اسے ماننے پر مجبور ہوجائیں۔
ابے عقل کے اندھو! اپنے کان کو ایک دفعہ ہاتھ لگا کے تو دیکھ لو۔ بس کوے کے پیچھے بھاگ رہے ہو کہ “کوا کان لے گیا”۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں