Warning: mysqli_query(): (HY000/1194): Table 'wp_upviews' is marked as crashed and should be repaired in /home/kehdopak/public_html/wp-includes/class-wpdb.php on line 2351

Warning: mysqli_query(): (HY000/1194): Table 'wp_upviews' is marked as crashed and should be repaired in /home/kehdopak/public_html/wp-includes/class-wpdb.php on line 2351

اندھیری سڑک اور خواجہ سرا

یوں تو خواجہ سراؤں کو پاکستان میں اکثر ’’خوشخبریاں‘‘ ملتی رہتی ہیں۔لیکن اس بار ان کے لئے ایک وکھری خوش خبری ہے۔ سنا ہے کہ دو خواجہ سراؤں کو بڑی عدالت میں ملازمت ملنے والی ہے۔یہ سن کر دل جھوم گیا اور ہم خیالوں میں ادارے کا وہ منظر بنانے لگے۔۔خیر ابھی یہ بات سامنے نہیں آئی کہ خواجہ سرا وہاں کام کیا کریں گے۔۔
آپ کو یاد ہوگا کہ کراچی میں کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن نے خواجہ سراؤں کا بہت خوب استعمال کیا تھا۔کچھ لوگ اسے خواجہ سراؤں کا مِس یوز بھی کہتے ہیں، معاملہ یہ تھا کہ خواجہ سراؤں پر مشتمل ٹیکس وصولی عملہ کلفٹن کے نادہندگان کے گھروں کے باہر اپنے فن کا مظاہرہ کرتا تھا۔ اور اس وقت تک کرتا تھا جب تک گھر والے شرمندہ ہوکر ٹیکس ادائیگی کیلئے تیار نہ ہوجاتے۔یہ طریقہ بہت سفل رہا اور لوگ خود ٹیکس بھرنے کیلئے آنے لگے۔لیکن یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اس مائنڈ بلوئنگ ٹیکنیک پر اس ادارے کو کوئی ایوارڈ کیوں نہیں ملا۔

یہ وہ دور تھا جو پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تاریخ کا سنہری دور کہلاتا ہے ۔اس دور میں سپریم کورٹ کے رحم دل چیف جسٹس افتخار چوہدری نے خواجہ سراؤں کے دکھ بانٹنے کا بیڑہ اٹھالیا تھا۔اس زمانے میں کوئی خواجہ سرا کی توہین کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔چیف صاحب نے انہیں آئینی لحاظ سے تیسری جنس قراردلوایا۔ ان ہی کے حکم پر شناختی کارڈ اورپاسپورٹ میں خواجہ سراؤں کی جنس کا الگ خانہ مختص کیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ خواجہ سرا آج بھی افتخار چوہدری کےگیت گاتے ہیں۔۔

ہمارا معاشرہ بھی خواجہ سراؤں سے بہت محبت کرتا ہے۔یہ معاشرہ خواجہ سراؤں کو قومی دھارے میں لانے کی کوششوں میں برسوں سے لگا ہے۔اکثرلوگ خواجہ سراؤں کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔بہت سے لوگ انہیں اپنی گاڑی میں برابر میں بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرہ انہیں برابری کا درجہ دیتا ہے۔

پاکستان میں خواجہ سراؤں کو پورے حقوق حاصل ہیں۔۔دن ہو یا رات ، ان کے پروگراموں پرکوئی پابندی نہیں۔۔وہ اپنے لئے روزگار کے زرائع منتخب کرنے کیلئے پوری طرح سے آزاد ہیں۔

خواجہ سرا شہرکے سگنلوں پرگاڑیوں پر دستک دیتے نظر آتے ہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ان کی خودداری ہے اور وہ لوگوں کے گھروں پر دستک دینا پسند نہیں کرتے۔

سگنلوں پر خواجہ سراؤں کی موجودگی اس امر کا بھی اظہار ہے کہ وہ ٹریفک کنٹرول کرنے کی قدرتی صلاحیت کے حامل بھی ہیں۔اور اس بنا پر خیال کیا جاتا ہے کہ ٹریفک پولیس میں ان کی شمولیت سود مند ثابت ہوسکتی ہے۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ سگنل کی ہری اورلال بتی کا کام بھی انجام دے سکتے ہیں۔

خواجہ سراؤں کی خبریں میڈیا پر خوب جگہ بناتی ہیں ۔ لیکن ایک خواجہ سرا ایسا بھی ہے جس نے بذات خود میڈیا میں جگہ بنا لی۔کوہ نور ٹی وی نامی ، کیبل کے پچھلے نمبروں پر گم رہنے والا چینل، خواجہ سرا کو نوکری دے کر مشہور ہوگیا ۔ واہ واہ تو خوب ہوئی ، لیکن چند دن بعد ہی بات پرانی ہوگئی ۔نجانے اب وہ ٹی وی اور خواجہ سرا کس حال میں ہیں۔

ہم بچپن میں سنتے تھے کہ خواجہ سرا اصل میں مرد ہوتے ہیں لیکن میک اپ کرکے کمائی دھندے کیلئے یہ انداز اپناتے ہیں۔ اس بات میں ایک حد تک صداقت بھی تھی۔لیکن کچھ خواجہ سرا اصلی خواجہ سرا بھی ہوتے ہیں اور وہ واقعی لائق رحم بھی ہوتے ہیں۔۔اور ان کا نصیب “اندھیری سڑک اور مٹرگشت” نہیں‌ ہونا چاہیئے..
آخر میں ایک سنجیدہ سوال یہ ہے کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کی مہم چلانے والے افراد اور اداروں نے کبھی یہ کوشش کیوں نہیں کی،کہ خواجہ سراؤں کے ناچ گانے اور گروہ کی صورت میں رہنے کےعمل کی حوصلہ شکنی کی جائے۔اس طرز عمل کا خاتمہ ان کی معاشرے میں عزت قائم کرنے کیلئے ازحد ضروری ہے۔ اگرایسا نہ ہوسکا تو چاہے شناختی کارڈ میں ان کی جنس ڈال دیں یا انہیں ناسا میں نوکری دلوا دیں۔معاشرے میں ان کی حالت ، مقام اور کردار میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں