چندو رام، چور ہے (شعیب واجد)

چندو رام بھینس چُراتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا، چندو رام چور ہے لیکن اس کے بچے بچیاں بہت نیک ہیں۔ہمیں مسئلہ چندو سے ہے اس کے بچے اور بچیوں سے کوئی مسئلہ نہیں۔ پانڈو خان محلے کے نکڑ پر بیٹھ کر لوگوں کو یہ کہانی سنا رہے تھے۔
دوسرے روز پانڈو خان ایک اسپتال کے ویٹنگ روم میں بھی لوگوں کو یہی داستان سنا رہے تھے۔
اگلے روز چندو رام کے بیٹے کو جو ایک دکان پر ملازمت کرتا تھا ، نکال دیا گیا، نکالنے کی وجہ نہیں بتائی گئی، لیکن بیٹے نے سنا کہ مالک کہہ رہا تھا کہ سنا ہے کہ چور کا بیٹا ہے کہیں دکان میں چوری نہ ہوجائے۔یہ سن کرچندو کے بیٹے کا تو دل ہی ٹوٹ گیا۔
کچھ روز بعد پانڈو خان محلے میں حلیم بنا رہے تھے، سب لوگوں کو جمع کیا تھا، بیٹھک لگی تو کہنے لگے کہ چندو رام بہت بڑا چور ہے، ہمیں اس کا بائیکاٹ کرنا چاہیئے۔لیکن اس کے بچے بچیاں بہت اچھے ہیں کوئی انھیں کچھ نہ کہے۔رات بھر حلیم بنتا رہا، صبح سب نے ڈٹ کر کھایا۔
اگلے روز چندو رام کی بیٹی کی منگنی ٹوٹنے کی خبر محلے میں پھیل گئی۔ شاید لڑکے والوں کو پہلے پتا نہیں تھا کہ چندو چور ہے، لیکن کہیں سے اڑتی پڑتی انھیں خبر ملی تو انھوں نے رشتہ توڑ دیا، چندو کی معصوم بیٹی کے دل پر تو چھریاں چل گئیں۔
پانڈو کی کہانیاں اپنا اثر دکھا رہی تھیں۔۔حالانکہ اس کی ہر کہانی میں یہ ضرور ہوتا تھا کہ ہمیں چندو کے بچے بچیوں سے کوئی گلہ نہیں۔۔لیکن بے چارے بچے قدرتی طور پر مفت میں‌ بدنام ہورہے تھے.

پانڈو خان ایک روز ٹرین میں سفر کررہے تھے، سفر میں کئی لوگ ان کے دوست بن گئے۔ پانڈو ان کو بتا رہے تھے کہ چندو رام بڑا چور ہے، آپ سب لوگ شہر میں اس سے ہوشیار رہیں۔
چند دن بعد علاقے کے چائے کے ہوٹل پر بھی پانڈو خان نے یہی بات دہرائی ۔
کچھ دن بعد چندورام کے چھوٹے بیٹے کو اسکول سے نکال دیا گیا۔اسکول انتظامیہ کا کہنا تھا کہ اطلاع ملی ہے کہ بچے کے والد کا کردار اچھا نہیں،اس سے دوسرے بچوں پر برا اثر پڑ سکتا ہے، معصوم بچے پر تو جیسے بجلیاں گر پڑیں ، اس کا پڑھنے کا خواب جیسے چکنا چور ہونے لگا۔
جی پانڈو خان صاحب ۔۔آپ ٹھیک کہتے ہو، چندو کے بچوں اور بچیوں کو تو آپ برا نہیں کہتے ، لیکن چندو کے خلاف آپ نے حق گوئی کی جو مہم چلائی ہوئی ہے، اس کے بعد چندو کے بچوں کے ساتھ جو کرنا ہے وہ تو ہمارا معاشرہ کرلے گا۔یہ معاشرہ بڑا ظالم ہے، پانڈو صاحب آپ چندو کو معاف کرنے کو تیار نہیں تھے، لیکن یہ معاشرہ تو اس کے بچوں کو بھی معاف نہیں کرے گا جن کا کوئی قصور ہی نہیں۔ایسا صرف آپ کی دلی کیفیت کی وجہ سے ہورہا ہے۔
مندرجہ بالا کہانی سے اگر آپ کوئی عکس نہیں بنا پائے تو چلیں‌ میاں نواز شریف صاحب کے مسلسل بیانات ہی سن لیجئے۔بات سمجھ آجائے گی۔
میاں صاحب مسلسل ایک ہی بات کہہ رہے ہیں، انھیں گلہ چند جرنیلوں سے ہے، باقی فوج تو بہت اچھی ہے۔
چند جرنیلوں سے میاں صاحب کی ذاتی لڑائی کو وہ سیاسی لڑائی بتاتے ہیں۔تاہم ساتھ ہی وہ یہ کہہ کراپنے موقف میں توازن پیدا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ انھیں پوری فوج سے نہیں صرف چند جرنیلوں سے شکایت ہے۔
ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس مہمِ مسلسل سے صرف چند جرنیل ہی متاثر ہوں اور باقی ادارہ محفوظ رہے، یہ مہم اب دسویں سال میں داخل ہوچکی ہے، لیکن دل کی لگی ہے کہ بجھتی دکھائی نہیں دے رہی۔اس مہم سے اب فوج کا پورا ادارہ متاثر ہونے لگا ہے۔۔
مانا کہ کچھ جرنیلوں نے غلطیاں کی ہوں گی، اور نواز شریف بھی غلطیوں سے مبرا نہیں۔ لیکن نواز شریف شاید اب اس ذہنی حالت میں ہیں جہاں وہ ماضی سے کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ نوازشریف کا محورِ سیاست اب صرف اداروں سے محاذ آرائی ہی نظر آرہا ہے۔اس کوشش میں وہ اداروں کی ساکھ اور اپنے مستقبل کو شدید نقصان پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں۔اور آنے والے دن شاید ملک کیلئے اور ان کے اپنے لئے کسی بہتری کی نوید سناتے نظر نہیں آرہے۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں