3 نومبر 2020 امریکہ میں صدارتی انتخابات کا دن تھا برسوں سے امریکہ میں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ ہر چار سال بعد نومبر کے مہینے میں پہلے ہفتے کے منگل کے دن پورے امریکہ میں انتخابات کا تاریخی دن ہوتا ہے، اس دن ہونے والی ووٹنگ اصل میں الیکٹرز کو منتخب کرنے کے لیے کی جاتی ہے جو حتمی طور پر صدر کا انتخاب کرتے ہیں یعنی جب امریکی عوام صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈال رہے ہوتے ہیں تو وہ دراصل ایسے افراد کو منتخب کر رہے ہوتے ہیں جو مل کر الیکٹرل کالج بناتے ہیں اور ان کا کام ملک کے صدر اور نائب صدر کا انتخاب کرنا ہوتا ہے، امریکی صدارتی انتخاب میں سب سے اہم ادارہ ہی الیکٹرول کالج ہے جو صدر کا انتخاب کرتا ہے اور اس کے ارکان کو الیکٹر کہا جاتا ہے جنہیں امریکی عوام اسی انتخابات کے ذریعے منتخب کرتے ہیں اور یہ الیکٹرز منتخب ہونے کے بعد دسمبر کے مہینے میں اپنی اپنی ریاست میں ایک جگہ اکٹھے ہو کر صدر کے چناؤ کے لیے ووٹ ڈالتے ہیں.
امریکہ میں ہر ریاست میں الیکٹرول کالج کے اراکین کی تعداد اس کی آبادی کے تناسب سے ہوتی ہے جبکہ الیکٹرز کی کل تعداد 538 ہے اور جیتنے والے امیدوار کو کم از کم 270 ووٹ درکار ہوتے ہیں، ہر ریاست کی کانگریس میں جتنی سیٹیں ہوتی ہیں اور سینیٹ کے دو ارکان ملا کر اس ریاست کے الیکٹرز کی تعداد بھی اتنی ہی ہوتی ہے۔ یعنی اگر کسی ریاست کی کانگریس میں دس سیٹیں ہیں اور سینیٹ کے دو اراکین کو ملا کر اس ریاست کے الیکٹرز کی تعداد بارہ ہوگی۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ سینیٹ میں ہر ریاست کو مساوی نمائندگی دی گئی ہے، چھوٹی ریاست ہو یا بڑی ریاست ہو سینیٹ میں اس کے دو ہی ارکان ہونگے، ریاست کے تمام الیکٹرول ووٹ اسی امیدوار کو ملتے ہیں جسے ریاست میں زیادہ ووٹ ملے ہوں مثال کے طور پر اگر ریاست ٹیکساس کوئی امیدوار 50.1 فیصد ووٹ حاصل کرتا ہے تو اس ریاست کے تمام 38 الیکٹرول ووٹ اسی امیدوار کو ملیں گے لیکن اس کے علاوہ کچھ ریاستیں ایسی بھی ہیں جو اپنے الیکٹرول ووٹ امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے تقسیم کرتی ہیں ان ریاستوں کو “سوئنگ اسٹیٹس” یا ڈانوا ڈول ریاستیں کہا جاتا ہے، یہ ایسی ریاستیں ہیں جہاں نتائج میں پلڑا کسی بھی امیدوار کا بھاری ہو سکتا ہے۔ امریکی انتخابات میں ایک اور بھی اہم خصوصیت ہے کہ عین ممکن ہے کہ جو امیدوار جیتا ہو ہو سکتا ہے اسے عوام کی طرف سے کم ووٹ ملے ہوں ہارنے والے امیدوار کے مقابلے میں لیکن پھر بھی وہ صدر منتخب ہو جاتا ہے اس کی واضح مثال 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن سے 30 لاکھ کم ووٹ حاصل کیے تھے لیکن وہ صدر بنے تھے، کیونکہ انہوں نے الیکٹرورل کالج میں اکثریت حاصل کی سن 2000 میں بھی جارج ڈبلیو بش نے 271 الیکٹرورل ووٹوں سے کامیابی حاصل کی جبکہ ان کے مدمقابل ڈیموکریٹ امیدوار ایل گور نے ان سے 5 لاکھ زائد عوامی ووٹ حاصل کئے تھے۔
رواں برس ہونے والے انتخابات نے بھی امریکہ میں ایک نئی تاریغ رقم کی ہے ۔حسب معمول دو امیدوار ہی مدمقابل تھے، کیونکہ امریکہ میں دو پاڑٹی سسٹم ہی رائج ہے دو ہی پارٹیاں انتخابات میں حصہ لیتی ہیں ایک ڈیمو کریٹ پاڑٹی جس کا انتخابی نشان گدھا ہے، پاکستان میں تو اب گدھے لفظ کی اصطلاح انتخابات میں استعمال کی جانے لگی ہے لیکن امریکہ میں تو یہ صدیوں سے انتخابی نشان کے طور پر استعمال ہو رہا ہے اور دوسری ری پبلکن پاڑٹی جس کا انتخابی نشان ہاتھی ہے۔ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ تھے جو کہ دوسری بار منتخب ہونا چاہتے تھے اور ڈیموکریٹ امیدوار جوبائیڈن تھے امریکی انتخابات میں تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا ہے کہ کسی امیدوار نے 7 کروڑ سے زہادہ ووٹ حاصل کئیے ہوں اور مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار دونوں ہی امیدواروں نے 7 کروڑ ووٹ حاصل کر کے ایک نئی تاریغ رقم کی ہے۔اس کے علاوہ پہلی بار امریکی عوام نے ایک 77 سالہ امیدوار جوبائیڈن کو اپنا نیا صدر منتخب کیا ہے۔اس کے علاوہ اس بار امریکہ میں منتخب ہونے والے صدر اور نائب صدر دونوں ہی پیشے کے اعتبار قانون دان بھی ہیں۔ ان انتخابات میں دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب رات گئے تک رپبلکن امیدوار ڈونلڈٹرمپ برتری حاصل کیے ہوئے تھے لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا ان کی برتری کم ہوتی گئی اور پھر آخر کار وہ شکست سے دوچار ہوگئےاس کی بنیادی وجہ ان انتخابات میں پہلی بار عوام کو پوسٹل بیلٹ کا بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کا اختیار دیا گیا کرونا وباء کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام نے بڑی تعداد میں پوسٹل بیلٹ کے ذریعے اپنے ووٹ کا حق استعمال کیایہی وجہ تھی کہ دوسرے دن صبح تک کمپیوٹرائز رزلٹ تو تیار تھا لیکن ایک بہت بڑی تعداد پوسٹل بیلٹس کی موجود تھیں جن کو شمار کیا جانا ضروری تھا، پوسٹل بیلٹس کی اتنی بڑی تعداد نے ان نتائج کو بڑی حد تک متاثر کیا.
انتخابات کے کچھ دن بعد تک پوسٹل بیلٹ موصول ہوتے رہے حتیٰ کہ مجبوراً حکام کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ جس پوسٹل بیلٹ پر 3 نومبر یعنی منگل کے دن کی مہر ہوگی صرف اسے ہی رائے شماری میں شمار کیا جائے گا، اس امریکی انتخابات میں کچھ واقعات ایسے بھی رونما ہوئے ہیں جو پاکستان میں ہونے والے 2013 کے انتخابات سے مماثلت رکھتے ہیں ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن نے دوسرے دن جو امریکی عوام سے خطاب کیا اسے قبل از وقت فتح کے اعلان سے تشبیہ دی جا رہی ہے واضح رہے کہ بالکل اسی طرح 2013 میں جب مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے بھی عوام سے خطاب کیا تھا تو اسے بھی قبل از وقت انتخابی فتح کے اعلان ہی تصور کیا جاتا ہے2013 کے انتخابات کے فورا بعد ہی پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان نے چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ اور دھاندلی کا الزام بھی لگایا تھا بالکل اسی طرح امریکہ میں بھی ہارنے والے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے چار ریاستوں کی گنتی کو چیلنج کردیا ہے اور دھاندلی کا الزام بھی عائد کر دیا ہے اس بار یہ خیال بھی کیا جا رہا ہے کہ شاید امریکی تاریخ میں پہلی بار ایسا بھی ہو جائے کہ نئے صدر کی حلف برداری کی تقریب میں موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ شرکت ہی نہ کریں اب دیکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ واقعات کس طرح امریکہ کی تاریخ پر اثر انداز ہوتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ امریکہ کی ریاستی ادارے اس نئے پیدا شدہ مسلہ کو بھی نہایت فہم و فراست سے حل کرلیں گے، کیونکہ وہاں ایک ایسا چیک اینڈ بیلنس کا مضبوط نظام رائج ہے جس کی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی اور یہی ان کے سیاسی معاشی اقتصادی اور دفاعی نظام کی کامیابی کا ضامن بھی ہے.
(مرزا شجاع بیگ )