نہ جانے انگریزی بولنے والے ملکوں کا اسرائیل سے کیا رشتہ ہے،ستر سال قبل جب فلسطین پر اسرائیل نے قبضہ کیا تو فلسطینیوں نے قبضہ ختم کرانے کیلئے ہتھیار اٹھا لئے۔۔دنیا بھر کی انصاف پسند اقوام فلسطین کی تحریک آزادی کے ساتھ ہوگئیں۔لیکن اسرائیل نے فلسطینیوں کوحق دینے سے صاف انکار کیا۔دوسري طرف امریکا اور برطانیہ نے اسرائیل کی اندھادھند حمایت شروع کردی۔اس وقت دنیا میں دہشت گردی کا نام بھی کوئی نہیں جانتا تھا۔ستر سالوں کے دوران اسرائیل نے دو لاکھ فلسطینعوں کا خون بہا دیا۔لیکن فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے کوئی عالمی کارروائی نہ ہوئی۔۔۔ساتھ ہی فلسطینیوں کوسپر پاورز، عالمی داروں اور دیگر ممالک کی جانب سے صرف لولی پاپ دیئے جاتے رہے۔۔
اسی طرف دنیا میں کئی دیگر مسائل اور بھی ایسے تھے جومسلمانوں سے ہی متعلق تھے، جیسے مسئلہ کشمیر وغیرہ۔۔
لاوا جب بہت پک جاتا ہے تو ابل پڑتا ہے۔۔اور پھر سامنے آنے والی ہر شے کو جلا ڈالتا ہے۔۔ اور وہی اب ہورہا ہے۔۔۔
فلسطین اور کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔۔لیکن ان پر عمل کرانے والا کوئی نہیں۔تاریخ نے ثابت کیا کہ اقوام متحدہ کی صرف ان قراردادوں پر ہی عمل ہوپایا ہے، جو بڑی طاقتوں کے مفادات سے متعلق تھیں ۔۔
اسی دوران دنیا میں ظلم و بربریت کے ایسے واقعات ہوئے جو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔۔امریکا نے صدام حسین کو ظالم قرار دے کر، اور عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر جو جنگ شروع کی ، وہ جنگ تاریخ کے چند بڑے ظلموں میں سے ایک ہے۔۔جہاں ایک آزاد ملک پر حملہ کرکے ڈیڑھ لاکھ انسانوں کو قتل کردیا گیا۔ اور خانہ جنگی کی ایسی آگ لگائی گئی جس سے مزید ڈیڑھ لاکھ افراد جان سے گئے۔۔اس ظلم میں برطانیہ اور آسٹریلیا نے امریکا کا کھل کر ساتھ دیا، صدام تو آج دنیا میں نہیں ، لیکن تاریخ میں آج یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ ظالم صدام نہیں امریکا تھا ۔
ظلم و انصافی کی ان بدترین مثالوں نے دنیا میں دہشت گردی کے نا ختم ہونے والے سلسلے کو جنم دیا۔۔ جس کے نتیجے میں القاعدہ ، طالبان اور داعش جیسی تنظیمیں وجود میں آئیں۔جو صرف تباہی اوربربادی پھیلانے کواپنا مشن بنا چکی ہیں۔۔
دہشت گردی کی اصل وجوہات کو سامنے لانے اور سچ کی آواز کو بلند کرنے والی تمام آوازیں آج جیسے خاموش ہوچکی ہیں۔۔ پاکستان اور اسلامی دنیا کے رہنما امریکا اور یورپ میں ہوئے دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی مذمت تو خوب کرتے ہیں، لیکن ساتھ میں یہ بات کوئی نہیں کرتا کہ جناب۔۔ یہ آگ توآپ نے ستر سال پہلے سے بھڑکائی ہوئی ہے اور ہر سال اسے ہوا دی۔۔۔ظلم کیا، ظلم ہونے دیا لیکن انصاف نہ ہونے دیا۔۔
دہشت گردی کی یہ بدترين آگ کیسے بجھائی جاسکتی ہے۔ دہشت گردی کا مسئلہ کبھی بھی دہشت گردی کے درخت کے پتے کاٹ کرحل نہیں ہوسکتا۔۔اس کے لئےاس کی جڑہی کاٹنا ہوگی۔یعنی فلسطین اور کشمیر جیسے مسئلے حل کرنا ہوں گے۔۔
لیکن شاید حقیقت يہی ہے کہ عالمی طاقتیں دہشت گردی کو پروان ہی چڑھانا چاہتی ہیں۔۔انھیں اس کی جڑ کاٹنے سے کوئی سروکار نہیں۔۔انھیں اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے مسائل سے نظریں چرا کر یوں ہی وقت گزارتے رہنا ہے، جیسے وہ ستر سال سے کرتے آرہے ہیں..
